Maktaba Wahhabi

282 - 440
یہ بھی یاد رہے کہ یہ سارے واقعات بیداری کی حالت میں پیش آئے نہ کہ نیند کی حالت میں۔ کیونکہ خواب کا تو کوئی بھی انکار نہیں کرتا۔ کفار قریش بھی انکار نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا اگر یہ خواب ہوتا تو وہ بھی اس کا انکار نہ کرتے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے ’’اَسْرٰی بِعَبْدِہِ‘‘ کے الفاظ فرمائے ہیں۔ ’’عبد‘‘ کا لفظ روح اور جسم کے مجموعے پر بولا جاتا ہے۔ نہ تو تنہا روح کو ’’عبد‘‘ کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی تنہا جسم کو۔ ***** وَکَانَ یَقْظَۃً لَامَنَاماً (۱) فَإِنَّ قُرَیْشًا أَنْکَرَتْہُ وَاَکْبَرَتْہُ وَلَمْ تَکُنْ تُنْکِرُ الْمَنَامَاتِ۔ (۲) وَمِنْ ذَالِکَ: أَنَّ مَلَکَ الْمَوْتِ لَمَّا جَائَ إِلَي مُوْسٰي عَلَیْہِ السَّلَامُ لَِقْبِضْ رُوْحَہُ لَطَمَہُ فَفَقَأَ عَیْنُہُ فَرَجَعَ إِلَی رَبِّہِ فَرَدَّ عَلَیْہِ عَیْنَہُ۔ (۳) ترجمہ…: یہ حالت بیداری میں ہوئی تھی نہ کہ حالت نیند میں۔ کیونکہ قریش نے اس کا انکار کیا اور اسے ناممکن جانا۔ جبکہ وہ نیند کی حالت (میں دیکھی ہوئی چیزوں) کا انکار نہیں کرتے تھے۔ ایسی احادیث میں سے ایک یہ ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس ملک الموت (موت کا فرشتہ) آپ علیہ السلام کی روح قبض کرنے آیا تو آپ علیہ السلام نے اس کو تھپڑ مارا۔ اس کی آنکھ پھوٹ گئی اور وہ اپنے رب کی طرف لوٹا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ درست کردی۔ تشریح…: (۱) اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر نیند کی حالت میں ہوتا تو قریش والے اس کا انکار نہ کرتے۔ کیونکہ خواب کا تو کوئی بھی انکار نہیں کرتا۔ تو ثابت ہوا کہ یہ خواب نہیں تھا۔ ہاں البتہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب کی حالت میں بھی یہ دیکھا تھا۔ لیکن یہ اسراء اور معراج کا موقعہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک اور واقعہ ہے۔ (۲)… کفار قریش خوابوں کا انکار نہیں کرتے تھے۔ بلکہ کفار و مومنین میں سے کوئی بھی خوابوں کا انکار نہیں کرتا۔ کیونکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ (۱)… اور جن باتوں کی تصدیق کرنا واجب ہے ان میں سے ایک موسیٰ علیہ السلام اور ملک الموت کا قصہ بھی ہے۔ موسیٰ سے مراد موسیٰ بن عمران کلیم اللہ علیہ السلام ہیں۔ (واقعہ یوں ہے کہ)
Flag Counter