Maktaba Wahhabi

278 - 440
متعلق ہی ہو اس پر ایمان لانا اور اس کی تصدیق کرنا واجب ہے۔ اور اگر کسی حدیث کی سند صحیح نہ ہو تو اس پر ایمان لانا ہم سے مطلوب ہی نہیں ہے۔ لہٰذا ائمہ محدثین کے نزدیک (کسی بات پر ایمان لانے کے لیے) اس کی سند کا صحیح ہونا لازمی ہے۔ جب کوئی حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو اس میں نکتہ چینی کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں۔ (۳)… یعنی جس چیز کا ہم نے مشاہدہ کیا ہو اور جس کا مشاہدہ نہ کیا ہو ان میں کوئی فرق نہیں۔ اور ہر دو پر اسی طرح ایمان لانا واجب ہے گویا کہ ہم نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ کیونکہ اس کے بارے میں آپ کو اس صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے جو اپنی خواہش سے نہیں بولتا۔ لہٰذا اسے ایسے ہی سمجھیں جیسے آپ نے خود اس کا مشاہدہ کیا ہو، خواہ کوئی بات ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ عقل کی اس میں کوئی حیثیت نہیں۔ کیونکہ غیبی معاملات کو عقل نہیں سمجھ سکتی۔ مثلاً انسانی عقل عذاب قبر کا تصور نہیں کرسکتی کہ یہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا بن جاتی ہے۔ اسی لیے بعض لوگ کہتے ہیں: میّت تو مٹی بن جاتی ہے اور اگر ہم قبر کھودیں تو ہمیں وہاں کوئی آگ یا باغ دکھائی نہیں دیتا۔ ہم کہتے ہیں: یہ دنیا کی طرح دکھائی دینے والی چیز نہیں بلکہ یہ تو آخرت کا جہان ہے جسے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی آپ اسے محسوس کرسکتے ہیں۔ کسی چیز کے صحیح ہونے اور وجود کے لیے لازمی نہیں کہ وہ دکھائی بھی دے۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو آپ دیکھ سکتے ہیں، نہ ان کا مشاہدہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کا ادراک کرسکتے ہیں۔ حالانکہ وہ موجود ہیں۔ مثلاً دو شخص ایک دوسرے کے قریب سوجائیں، ان میں سے ایک تو بڑی پرسکون اور میٹھی نیند سوئے اور دوسرے کو پراگندہ خواب دکھائی دیتے ہوں۔ وہ نیند میں بے چین اور پریشان ہوتا ہے۔ لیکن ان دونوں کو ایک دوسرے کا احساس نہیں ہوتا۔ حالانکہ وہ ایک دوسرے کے قریب لیٹے ہوئے ہیں۔
Flag Counter