Maktaba Wahhabi

277 - 440
’’اور یقینا اگر تو ان سے پوچھے کہ انھیں کس نے پیدا کیا تو بلاشبہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ پھر کہاں بہکائے جاتے ہیں۔‘‘ جب خالق اللہ تعالیٰ ہے تو حکم بھی اسی کا چلتا ہے۔ وہی احکام دیتا ہے، قوانین بناتا اور کسی کام سے منع کرسکتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ غیب کی ان تمام باتوں میں عقل و فہم کا کوئی دخل نہیں اور نہ ہی کوئی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے بغیر ان میں سے کسی بات کا اقرار یا انکار کرسکتا ہے۔ ***** ویَجِبُ الْإِیْمَانُ بِکُلِّ مَا أَخْبَرَ بِہِ النَّبیُّ صلي للّٰه عليه وسلم (۱)؛ صَحَّ بِہِ النَّقْلُ عَنْہُ (۲) فِیْمَا شَاہَدْنَاہُ أَوْ غَابَ عَنّا، نَعْلَمُ أَنَّہُ حَقٌّ وَّصِدْقٌ، وَسِوَائٌ فِیْ ذٰلِکَ مَا عَقَلْنَاہُ أَوْ جَہِلْنَاہُ، وَلَمْ نَطّلِعْ عَلَی حَقِیْقَۃِ مَعْنَاہُ۔ (۳) ترجمہ …: ہر اس بات پر ایمان لانا واجب ہے جس کی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی، آپ سے صحیح سند سے منقول ہو۔ خواہ وہ ان معاملات کے متعلق ہو جن کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں یا ان کے متعلق جو ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔ ہم اسے حق اور سچ جانتے ہیں۔ برابر ہے کہ ہمیں اس کی سمجھ آئے یا ہم اس سے جہالت میں ہوں اور ہمیں اس کی حقیقی علت سمجھ نہ آئے۔ تشریح…: (۱) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض احادیث کو ماننا اور بعض کا انکار کرنا تمام احادیث کے انکار کے مترادف ہے۔ لہٰذا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں خواہ وہ ہماری عقل کے دائرے میں آئیں یا نہ آئیں۔ ہماری عقلوں کی اس معاملہ میں کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ وہ تمام چیزوں کو جاننے سے عاجز ہیں۔ تمام اشیاء کو صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ (۲)… چنانچہ جب کوئی حدیث صحیح سند سے ثابت ہو جائے تو خواہ وہ غیبی امورکے
Flag Counter