Maktaba Wahhabi

251 - 440
’’سو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھو اور سنو اور حکم مانو اور خرچ کرو، تمھارے اپنے لیے بہتر ہو گا۔ اور جو اپنے نفس کے بخل سے بچا لیے جائیں سو وہی کامیاب ہیں۔‘‘ لہٰذا جو شخص کوئی کام کرہی نہ سکتا ہو اور اسے چھوڑ دے تو اس سے اس بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ بلکہ جو شخص طاقت کے باوجود کوئی کام چھوڑ دے اس کا مواخذہ کیا جائے گا۔ (۴)… مذکورہ آیت میں ’’اَلْیَوْمَ‘‘ سے مراد قیامت کا دن ہے۔ ’’ تُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ ‘‘ کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے عمل کی نسبت مکلف کی طرف کی ہے اور جزاء کا تعلق بھی اسی سے قائم کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ کسی دوسرے کے اعمال کی بناء پر کسی کو عذاب نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ان کاموں پر کسی کا مواخذہ ہوگا جو بلا ارادہ، جہالت یا مجبوری کی بناء پر اس سے سرزد ہوجائیں۔ بلکہ مواخذہ صرف ان کاموں پر ہوگا جنہیں کوئی شخص اپنے ارادہ و اختیار سے کرتا ہے۔ ’’لَا ظُلْمَ الْیَوْمَ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بلاوجہ کسی کا مواخذہ نہیں فرمائیں گے۔ کیونکہ یہ تو ظلم ہے اور اللہ ظلم سے پاک اور بلند و برتر ہے۔ کسی جرم کے بغیر کسی کا مواخذہ کرنا یا مومنوں کو عذاب اور کافروں کو سزا دینا ظلم ہے۔ کیونکہ کسی چیز کو اس کے غیر مناسب مقام پر رکھنا ظلم ہے۔ سزا و جزا کا تعلق کفر و ایمان اور طاعت و معصیت کے ساتھ ہے جو کہ بندوں کے ارادی اور اختیاری افعال سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا اور یہی عدل ہے۔ اگر کسی انسان کا اس کے ناکردہ افعال پر غیر اختیاری، جہالت اور غلطی کی بناء پر کیے گئے کاموں پر مواخذہ کیا جائے تو یہ ظلم ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ پاک ہے۔ ﴿وَ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ وَ لٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ ط وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا،﴾ (الاحزاب:۵) ’’اور تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جس میں تم نے خطا کی۔ لیکن جو تمھارے دلوں
Flag Counter