جبکہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے سامنے اپنے اوامر و نواہی کی وضاحت کردی تو لوگوں کے لیے اللہ کے ہاں قضاء و قدر یا کسی بھی دوسری چیز میں کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ بلکہ وہ بذات خود قابل ملامت ہیں۔ کیونکہ انہوں نے حدود سے تجاوز کیا۔ لہٰذا ان کے افعال و اعمال پر ان کی پکڑ ہوگی۔ قضا و قدر اللہ کا معاملہ ہے۔ لیکن انسان جانتا ہے کہ اس میں قدرت و طاقت پائی جاتی ہے وہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ خیر و شر اور نفع بخش اور نقصان دہ چیزوں کو پہچانتا ہے۔ جب انسان اپنے اختیار اور علم سے یہ سب کچھ کرتا ہے تو اس کا اللہ کے ہاں کیا عذر باقی رہ جاتا ہے؟ ***** وَنَعْلَمُ أَنَّ اللّٰہَ مَا اَمَرَ وَ نَھَی إِلَّا الْمُسْتَطِیْعَ لِلْفِعْلِ وَالتَّرْکِ وَأَنَّہُ لَمْ یُجْبِرْ اَحَدًا عَلَی مَعْصِیَۃِ وَلَا اضْطَرَّہُ إِلَي تَرْکِ طَاعَۃٍ (۱) قَالَ اللّٰه تَعَالَی: ﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا﴾ (البقرہ:۲۸۶) (۲) وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالَی ﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن:۱۶) (۳) وقال تعالي ﴿اَلْیَوْمَ تُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ، لَا ظُلْمَ الْیَوْمَ،﴾ (غافر:۱۷) (۴) ترجمہ…: اور ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اوامر و نواہی صرف اسی کو دیے ہیں جو ان کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس نے کسی کو اپنی نافرمانی کرنے یا اطاعت کو ترک کرنے پر مجبور و مضطر نہیں کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا۔‘‘ نیز فرمایا: ’’سو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھو ۔‘‘ نیز فرمایا: ’’آج ہر شخص کو اس کا بدلہ دیا جائے گا جو اس نے کمایا، آج کوئی ظلم نہیں۔ ‘‘ تشریح…: (۱) یہ بھی گذشتہ بات ہی کی مزید تشریح و وضاحت ہے۔ یعنی ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسی کو کسی کام کا حکم دیتے یا منع کرتے ہیں جو کرنے اور نہ کرنے دونوں کی قدرت رکھتا ہو۔ کیونکہ اوامر و نواہی کا تعلق ہوتا ہی اس شخص سے ہے جس کے پاس قدرت |