لی۔ یقینا وہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ ہمارے والدین نے یہ نہیں کہا: اے ہمارے رب! تیرا فیصلہ اور تقدیر تھی۔ بلکہ فرمایا: ’’اے ہمارے رب! ہم نے ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا۔‘‘ گویا انہوں نے غلطی کا اعتراف کیا اور کہا: ’’اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحمت نہ کی تو ہم لازماً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا یہی طریقہ کار رہا ہے کہ جب ان سے کوئی غلطی ہوجاتی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے، اس سے توبہ و استغفار کرتے اور اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرلیتا۔ لہٰذا عام لوگ تو توبہ کے زیادہ محتاج ہیں۔ الغرض ایک مسلمان اپنے گناہوں اور معصیتوں کو قضاء و قدر کی طرف منسوب نہیں کرتا۔ اگرچہ ہر کام اللہ تعالیٰ کے قضاء و قدر سے ہوتا ہے لیکن وہ فعل انسان ہی کرتا ہے اور اس کو اس کے اختیار و اجتناب کی پوری طاقت ہے، چاہے تو وہ فعل سر انجام دے چاہے تو نہ دے۔ کیونکہ انسان کو کسی کام پر مجبور نہیں کیا جاتا بلکہ وہ خود ہی ایک گناہ کرتا ہے۔ اپنی مرضی سے اللہ کی طرف رجوع کرتا اور اس سے بخشش کی درخواست کرتا ہے۔ اور جو شخص اللہ کی طرف لوٹ آئے اللہ تعالیٰ اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کی توبہ قبول کرلیتے ہیں۔ ایک مسلمان کا شیوہ یہی ہونا چاہیے کہ اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو وہ قضاء و قدر کا بہانہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے کر توبہ سے دور نہ رہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کرے۔ ***** قَالَ اللّٰہُ تَعَالَی: ﴿لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ط﴾ (النساء:۱۶۵) (۱) ترجمہ…: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تاکہ لوگوں کے پاس رسولوں کے بعد اللہ کے مقابلے |
Book Name | شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ |
Writer | امام ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن محمد ابن قدامہ |
Publisher | مکتبہ الفرقان |
Publish Year | |
Translator | ابو یحیٰی محمد زکریا زاہد |
Volume | |
Number of Pages | 440 |
Introduction |