Maktaba Wahhabi

245 - 440
میں اس کی قضاء و قدر کو اپنے لیے حجت نہیں بناتے۔ بلکہ ہم پر یہ ایمان لانا اور جاننا واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کتابیں نازل کرکے اور رسول بھیج کر اپنی حجت ہم پر پوری کردی ہے۔ تشریح…: (۱) یہ قضاء و قدر سے متعلقہ ایک عظیم مسئلہ ہے کہ جب انسان سے کوئی گناہ یا غلطی سرزد ہوجائے اور وہ یہ کہہ کر کہ: یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور تقدیر ہے، توبہ نہ کرے اور اپنے گناہ کا اعتراف نہ کرے تو یہ جائز نہیں۔ بلکہ مومن پر واجب ہے کہ جب اس سے اللہ تعالیٰ کی کوئی نافرمانی ہوجائے تو وہ اُس سے توبہ کرے۔ مؤلف رحمہ اللہ کی عبادت مذکور بالا ’’اور ہم اللہ تعالیٰ کے اوامر کو ترک کرنے اور اس کی نواہی سے بچنے کے متعلق اس کی قضاء وقدر کو اپنے لیے حجت نہیں بناتے۔‘‘ چنانچہ قضاء و قدر کو گناہ کے کاموں کے لیے دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔ بلکہ اسے صرف ان مصائب میں دلیل بنایا جاسکتا ہے جن پر انسان کو کوئی اختیار نہ ہو۔ ایسے کاموں کو وہ قضاء وقدر کی طرف منسوب کرکے اس پر صبر کرے۔ لیکن گناہ میں تو انسان کو اختیار ہوتا ہے، اس میں اس کا ارادہ اور قدرت شامل ہوتی ہے، یہ انسان کا اپنا فعل اور کمائی ہوتی ہے۔ لہٰذا انسان کو چاہیے کہ گناہ پر خود کو ہی ملامت کرے اور اللہ تعالیٰ سے اس کی معافی مانگے۔ ہمارے والدین آدم و حوا علیہما السلام نے عرض کیا تھا: ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا سکتہ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ،﴾ (الاعراف:۲۳) ’’اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہو جائیں گے۔‘‘ اور دوسری آیت میں ہے: ﴿فَتَلَقَّیٰٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ،﴾ (البقرہ:۳۷) ’’پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے، تو اس نے اس کی توبہ قبول کر
Flag Counter