تجارت کی امید رکھتے ہیں جوکبھی برباد نہ ہو گی ۔ تاکہ وہ انھیں ان کے اجر پورے پورے دے اور اپنے فضل سے انھیں زیادہ بھی دے۔ بلا شبہ وہ بے حد بخشنے والا، نہایت قدردان ہے ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے محض یہ کہنے پر اکتفاء نہیں فرمایا۔ یَتْلُوْنَ کِتَاب اللّٰہِ (وہ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں) بلکہ فرمایا ﴿وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً﴾ یعنی تلاوت کے ساتھ ساتھ عمل بھی ضروری ہے۔ محض ریاکاری، دکھلاوے اور تعریف کروانے کے لیے تلاوت کرنا، قاری کو کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ نہ ہی روزی کمانے کے لیے تلاوت کا کوئی فائدہ ہے۔ جیسا کہ بعض قراء محفلوں میں تلاوت کرنے کی مزدوری لیتے ہیں اور تلاوت کو بطور پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن پر عمل کرنے میں سب سے پیچھے ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان میں سے بعض تو نماز بھی نہیں پڑھتے۔ محض وہ اچھے قاری اور اچھی آواز والے ہوتے ہیں۔ قرآن کو ایک پیشہ بنالیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ شدید ترین وعید ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے ہے: ﴿لَا یَتَجَاوَزُ الْقُرْاٰنُ تَرَاقِیَہُمْ﴾ ’’جن کا قرآن گلے سے نیچے نہیں اترتا۔‘‘ یعنی وہ زبان سے اپنے مقاصد کے لیے قرآن پڑھتے تو ہیں لیکن وہ ان کے دلوں تک نہیں پہنچتا۔ (اللہ کی پناہ) ایسے ہی کچھ لوگ قرآن کی تلاوت بڑے پختہ انداز میں کرتے ہیں اور اس کے الفاظ کو تیر کی طرح سیدھا کرکے پڑھتے ہیں۔ لیکن وہ نہ تو معانی کو سمجھتے ہیں، نہ کتاب اللہ میں غور کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی تفسیر سیکھتے ہیں۔ تاکہ وہ اس پر عمل کرسکیں۔ بلکہ محض الفاظ کو ادا کرتے ہیں۔ معانی کو یا تو سمجھتے ہی نہیں یا قرآن کریم سے خوارج کی طرح غلط استدلال کرتے ہیں۔ خوارج اگرچہ سب سے زیادہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں لیکن وہ دین سے اس طرح نکل جاتے ہیں جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے۔ کیونکہ وہ نہ تو قرآن کریم میں غور کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے معانی کو مطلوبہ انداز سے سیکھتے ہیں۔ لہٰذا قرآن ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترتا۔ چنانچہ اس ضمن میں چند باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ |