Maktaba Wahhabi

180 - 440
لَہُ أَوَّلٌ وَاٰخَرٌ (۱) وَأَجْزَائٌ وَّأَبْعَاضٌ (۲) مَتْلُوٌّ بِالْأَلْسِنَۃِ، مَحْفُوْظٌ فِی الصُّدُوْرِ، مَسْمُوْعٌ بِالْآذَانِ، مَکْتُوْبٌ فِی الْمَصَاحِفِ (۳) فِیْہِ مُحْکِمٌ وَّمُتَشَابِہٌ (۴) وَنَاسِخٌ وَّمَنْسُوْخٌ (۵) وَخَاصٌ وَّعَامٌ (۶) وَاَمْرٌ وَنَہْیٌ (۷)۔ ترجمہ…: اس کا آغاز و اختتام ہے، پارے اور اجزاء ہیں۔ زبانوں سے اس کی تلاوت کی جاتی ہے۔ سینوں میں محفوظ ہے، کانوں سے سنا جاتا ہے، مصاحف میں لکھا ہوا ہے۔ اس میں محکم بھی ہیں اور متشابہ بھی۔ ناسخ و منسوخ، خاص و عام اور امر و نہی بھی۔ تشریح…: (۱) قرآن کا اوّل و آخر بھی ہے یعنی ابتداء و انتہا۔ اس مصحف کے مطابق جس پر صحابہ کرام کا اجماع ہوا تھا، اس کی ابتداء سورۃ الفاتحہ سے ہوتی ہے اور اختتام سورۃ الناس پر۔ (۲)… قرآن کے پارے ہیں۔ جیسا کہ معروف ہے اس کے ۳۰ پارے ہیں۔ ہر پارے کے ۱۰، ۱۰ اوراق ہیں۔ اس میں احزاب بھی ہیں۔ احزاب سے مراد قرآن کا اتنا حصہ ہے جو قاری صلوٰۃ اللیل (تہجد کی نماز) میں پڑھتا ہے۔ خواہ وہ کسی بھی اعتبار سے ہو یعنی پڑھا جاتا ہو یا مصاحف میں لکھا گیا ہو یا سینوں میں محفوظ ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اس میں اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ جب قاری قرآن کو پڑھتا ہے تو بھی وہ کلام اللہ کو ہی پڑھ رہا ہوتا ہے۔ آواز قاری کی ہوتی ہے جو مخلوق ہے لیکن جس چیز کو پڑھا جارہا ہو یا تلاوت کیا جارہا ہو وہ اللہ کا کلام ہوتا ہے وہ مخلوق نہیں۔ اگر قرآن کریم لکھا ہوا ہو تو اس کے الفاظ و معانی اللہ کا کلام ہوتے ہیں۔ لیکن ورق، سیاہی اور لکھنا یہ انسان کے کام ہیں۔ لہٰذا یہ مخلوق ہیں۔ الغرض یہ ہر حالت میں اللہ کا کلام رہتا ہے خواہ زبان سے اس کی تلاوت کی جارہی ہو، سینوں میں محفوظ ہو یا تختیوں، اوراق اور مصاحف میں لکھا ہوا ہو۔ یا ان سے بلند کسی چیز میں لکھا ہوا ہو یعنی لوح محفوظ میں۔ کیونکہ قرآن کریم لوح محفوظ پر بھی لکھا ہوا ہے۔ فرمایا:
Flag Counter