Maktaba Wahhabi

145 - 440
ہم اللہ تعالیٰ کی ذات اور اسماء و صفات کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ مخلوق میں سے کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی ذات اور اسماء و صفات کی کیفیت کو نہیں جانتا کیونکہ اللہ بہت عظیم ہے۔ ((اَلْکَیْفُ غَیْرُ مَعْقُوْلٍ لَنَا۔)) یعنی ہماری عقل اسماء و صفاتِ باری تعالیٰ کی کیفیت کو نہیں سمجھ سکتی اور آپ کو کیفیت کے بارے میں ہم سے سوال کرنے کا حق نہیں۔ کیونکہ اسے ہماری عقل نہیں سمجھ سکتی اور نہ ہی ہمارے لیے اس کا جواب دینا ممکن ہے۔ پھر آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’اَلْاِیْمَانُ بِہِ وَاجِبٌ‘‘ یعنی استواء کو اس کے حقیقی معنی کے ساتھ ماننا، اس کی کیفیت کو جاننے کی کوشش نہ کرنا اور بسر و چشم اسے تسلیم کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ ’’وَالسُّؤَالُ عَنْہُ بِدْعَۃٌ‘‘ یعنی کیفیت کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔ یہ آپ نے اس لیے فرمایا کیونکہ سائل نے کیفیت کے بارے میں سوال کیا تھا۔ گمراہ لوگ کہتے ہیں: ’’معنی کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا واجب ہے۔‘‘ لیکن یہ باطل عقیدہ ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا۔ امام مالک رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں۔ آپ رحمہ اللہ نے تو اس کی وضاحت کی اور فرمایا ’’اَلْإِسْتِوَائُ غَیْرُ مَجْہُوْلٍ‘‘ یعنی معنی معلوم ہے۔ لہٰذا اس کے بارے میں سوال کیا جاسکتا ہے۔ ’’وَالْکَیْفُ غَیْرُ مَعْقُوْلٍ‘‘ کیفیت سمجھ میں نہیں آسکتی۔ لہٰذا اس کے بارے میں سوال کرنا جائز نہیں۔ ’’وَالْإِیْمَانُ بِہِ وَاجِبٌ۔‘‘ یعنی استواء پر لفظی و معنوی طور پر ایمان لانا واجب ہے۔ ’’وَالسُّؤَالُ عَنْہُ بِدْعَۃٌ۔‘‘
Flag Counter