Maktaba Wahhabi

146 - 440
یعنی کیفیت کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔ کیونکہ آدمی نے کیفیت کے بارے میں سوال کیا تھا معنی کے بارے میں نہیں۔ پھر آپ رحمہ اللہ نے اس آدمی سے کہا: ’’مَا أَرَاکَ إِلَّا رَجُلَ سُوْئٍ۔‘‘ ’’میرے خیال میں تو ایک برا آدمی ہے۔‘‘ پھر آپ نے لوگوں کو حکم دیا اور اسے آپ کی مجلس سے نکال دیا گیا۔ تمام علماء پر اسی طرح واجب ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو دور کریں جو لوگوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں نکال باہر کریں تاکہ وہ ادب سیکھیں اور لوگوں کے سامنے رسوا ہوں۔ آپ نے اس کو اپنے حلقہ سے نکالنے کا حکم اس لیے دیا تھا کیونکہ وہ علم حاصل کرنے نہیں آیا تھا بلکہ مغالطے پیدا کرنے کے لیے آیا تھا۔ سوال کی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ ہر چیز کے بارے میں سوال نہیں کیا جاتا بلکہ صرف ایسے امور کے بارے میں سوال کرنا چاہیے جو مشکل ہوں اور لوگوں کو ان کی ضرورت ہو مثلاً عبادات اور معاملات وغیرہ تو ان چیزوں کے بارے میں سوال کرنا قابل تعریف ہے۔ ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ،﴾ (النحل:۴۳) ’’اور ہم نے تجھ سے پہلے نہیں بھیجے مگر مرد، جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے۔ سو علم والوں سے پوچھ لو، اگر تم شروع سے نہیں جانتے۔‘‘ جبکہ غلط قسم کے سوالات کرنا اور ایسے سوالات کرنا جو محض تکلف، وقت ضائع کرنے اور لوگوں کو پریشان کرنے والے ہوں اور لوگوں کو ان کی ضرورت نہ ہو، حرام ہے۔ اس سے رکنا اور ایسا کرنے والے کو سزا دینا واجب ہے۔ جیسا کہ امیر المومنین سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایسے رنگ ساز کو سزا دی اور اسے مدینہ سے نکال دیا جو قرآن کے ان متشابہ مقامات کے بارے میں سوال کرتا تھا جن کی لوگوں کو ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ (دیکھئے: سنن الدارمی: ۱۴۶، ۱۵۰) لہٰذا
Flag Counter