Maktaba Wahhabi

143 - 440
الزام نہ دھرتے۔ کیونکہ ان کی عقل و سمجھ ہی نقص اور تہمت کا محل ہیں۔ جبکہ کتاب و سنت تو دانا وبزرگ ربّ العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہیں۔ ﴿لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ ط تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ﴾ (فصلت:۴۲) ’’اس کے پاس باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے، ایک کمال حکمت والے، تمام خوبیوں والے کی طرف سے اتاری ہوئی ہے ۔‘‘ اور کتاب و سنت سے بڑھ کر کون سی تشریح اور دلالت واضح ہے۔ کاش! وہ عقل سے کام لیتے۔ بعض گمراہ لوگ کہتے ہیں: ’’قرآن و سنت لفظی چیزیں ہیں۔ یہ یقین کا فائدہ نہیں دیتیں، بلکہ یقین کا فائدہ تو عقلی اور منطقی قواعد دیتے ہیں۔‘‘ یہ حق سے انحراف ہے۔ اگر کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہدایت نہیں ملتی تو اور کس چیز سے ملے گی۔ ***** سُئِلَ مَالِکُ بْنُ اَنَسٍ الْاِمَامُ رحمہ اللّٰه ، فَقِیْلَ: یَا أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوَي﴾ (طہ:۵) کَیْفَ اسْتَوَی؟ فَقَالَ الْاِسْتِوَائُ غَیْرُ مَجْہُوْلٍ، وَالْکَیْفُ غَیْرُ مَعْقُوْلٍ، وَالْإِیْمَانُ بِہِ وَاجِبٌ، وَالسُّؤَالُ عَنْہُ بِدْعَۃٌ، ثُمَّ أَمَرَ بِالرَّجُلِ فَـأُخْرِجَ (۱)۔[1] ترجمہ…: امام مالک بن انس رحمہ اللہ سے پوچھا گیا ’’اے ابوعبد اللہ آیت ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ میں استواء کی کیفیت کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’استواء معلوم ہے اس کی کیفیت سمجھ میں نہیں آسکتی، اس پر ایمان لانا واجب اور اس کے بارہ میں سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘ پھر آپ نے اس آدمی کو نکالنے کا حکم دیا اور اس کو (مجلس سے) نکال دیا گیا۔
Flag Counter