جب اس لونڈی نے کہا ’’اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ایمان کی گواہی دی۔ اس کی بات کا اثبات کیا اور یہ درج ذیل آیت والا ہی مفہوم ہے۔ ﴿ئَ أَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ﴾ اس حدیث سے یہ سوال کرنے کا جواز ملتا ہے کہ ’’اللہ کہاں ہے؟‘‘ اور یہ معطلہ کے خلاف سخت ترین دلیل ہے۔ ان کے نزدیک یہ سوال ہرگز نہیں کیا جاسکتا کہ ’’اللہ کہاں ہے؟‘‘ کیونکہ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کسی جہت میں نہیں۔ اور جو کسی طرف میں بھی نہ ہو اس کے بارے میں یہ سوال نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کہاں ہے۔ لہٰذا یہ حدیث ان کی آنکھوں میں چبھتی ہے اور ان کے اوپر سب سے سخت حدیث یہی ہے۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں: یہاں ’’أین‘‘ کا معنی ہے ’’مَن‘‘ ۔ لہٰذا ’’أین اللّٰہ‘‘ کا معنی ہے: ’’مَنِ اللّٰہُ ‘‘ … اللہ کون ہے؟ کیا عرب و عجم کی لغت میں کسی جگہ ’’أین‘‘ ’’مَنْ‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے؟ مگر یہ جھوٹے لوگ ہیں اور جھوٹ سے نہیں بچتے۔ جبکہ حدیث بھی آیت کی طرح صریح اور بالکل واضح ہے۔ اور اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے آسمان میں ہونے کا انکار کرتا ہے وہ مومن نہیں۔ اور جو شخص اللہ کی بلندی کا منکر ہے وہ بھی ایماندار نہیں۔ ***** وَقَالَ النَّبِیُّ صلي للّٰه عليه وسلم لِحُصَیْنٍ ’’کَمْ إلٰہًا تُعْبَدُ؟ قَالَ سَبْعَۃٌ، سِتَّۃٌ فِي الْأَرْضِ وَوَاحِدًا فِي السّمَائِ۔ قَالَ وَمَنْ لِرَھْبَتِکَ وَرَغْبَتِکَ؟ قَالَ: الّذِیْ فِی السّمَآئِ۔ قَالَ فَاتْرُکِ السّتّۃَ، وَاعْبُدِ الّذِیْ فِی السَّمَآئِ، وَأَنَا أُعَلِّمُکَ دَعْوَتَیْنِ۔ فَأَسْلَمَ وَعَلَّمَہُ النَّبِیُّ صلي للّٰه عليه وسلم أَنْ یَقُوْلَ: اَللّہُمَّ أَلْہِمْنِیْ رُشْدِیْ وَقِنِیْ شَرَّ نَفْسِیْ۔‘‘ (۱) ترجمہ…: اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حصین رضی اللہ عنہ سے پوچھا: تو کتنے معبودوں کو پوجتا ہے؟ اس نے کہا سات کو۔ چھ زمین میں ہیں اور ایک آسمان میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو اپنی خوشی |