اور ڈر کے وقت کسے پکارتا ہے؟ اس نے کہا: اس ذات کو جو آسمان میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم چھ کو چھوڑ دو اور صرف اسی کی عبادت کرو جو آسمان میں ہے اور میں تمہیں دو دعائیں سکھاتا ہوں۔‘‘ چنانچہ وہ مسلمان ہوگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ دعائیں سکھائیں: ’’اے اللہ! مجھے سمجھداری عطا فرما اور میرے نفس کے شر سے مجھے بچالے۔‘‘ (جامع الترمذی، حدیث: ۳۴۸۳۔ رواہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما) تشریح…: (۱) یہ حدیث صفت علو (بلندی) کے دلائل میں سے ہے۔ حدیث یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنابِ عمران رضی اللہ عنہ کے والد سیّدنا حصین رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: تو کتنے معبودوں کو پوجتا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دراصل اس سے توحید کا اقرار اور شرک کا ابطال کرانا چاہتے تھے۔ اور یہ صرف ایسی دلیل سے ہی ممکن تھا جسے مدمقابل بھی مانتا ہو۔ انھوں نے جواب دیا: میں سات معبودوں کو پوجتا ہوں۔ ان میں سے چھ زمین میں ہیں اور ایک آسمان میں۔ یعنی ’’اللہ تعالیٰ‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا: تو خوف اور امید کے وقت کسے پکارتا ہے؟ انہوں نے کہا: اس ذات کو جو آسمان میں ہے۔‘‘ اس سے مشرکین کی حالت کا علم ہوتا ہے کہ وہ عبادت کے معاملے میں کس پاگل پن کا شکار تھے۔ جب انہوں نے توحید کو چھوڑا تو بہت سے معبودان باطلہ کے پجاری بن گئے۔ اللہ تعالیٰ جنابِ یوسف بن یعقوب علیہما السلام فرماتے ہیں: ﴿یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ، مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ ط اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ،﴾ (یوسف:۳۹تا۴۰) ’’اے قید خانے کے دو ساتھیو! کیا الگ الگ رب بہتر ہیں یا اللہ، جو اکیلا ہے، |