یہ اس لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے پیدا فرمایا تھا۔اور باقی مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’کُنْ‘‘ (ہوجا) تو وہ چیز پیدا ہوجاتی ہے۔ غرضیکہ تمام اشیاء اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آتی ہیں۔ لیکن آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کرنے کا شرف عطا فرمایا۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’خَلَقْتُ‘‘ (میں نے پیدا کیا) پھر فرمایا ’’بِیَدَیَّ‘‘ یعنی اپنے ہاتھوں سے اور یہ الفاظ اللہ کے ہاتھوں کے اثبات میں صریح اور واضح ہیں۔ گمراہ لوگ کہتے ہیں: ’’اللہ کے ہاتھوں سے مراد اس کی قدرت ہے۔ چنانچہ وہ آیت کا معنی یہ کرتے ہیں ’’میں نے آدم کو اپنی قدرت سے پیدا کیا۔‘‘ اس کا ردّ یہ ہے کہ: اگر ایسا ہے تو پھر آدم علیہ السلام کی کوئی خصوصیت اور امتیاز باقی نہیں رہتا۔ کیونکہ تمام مخلوقات ہی اللہ کی قدرت سے پیدا ہوئی ہیں۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’’بِیَدَیَّ‘‘ کے الفاظ فرمائے ہیں۔ اگر ہم اس کی تاویل کریں تو کیا ’’قُدْرَتَیَّ‘‘ کہیں گے (اللہ نے اپنی دو قدرتوں کے ساتھ) تو کیا اللہ کی دو قدرتیں ہیں یا ایک ہی قدرت؟ ظاہر ہے اس کی ایک ہی قدرت ہے اور یہ دلیل ہے کہ ’’بِیَدَیَّ‘‘ حقیقی ’’یَدٌ‘‘ کا تثنیہ ہے۔ یہی مفہوم لغوی معنی سے سمجھ میں آتا ہے اور معاشرے میں معروف بھی ہے۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ وہ ہیں جو صرف اسی کے ساتھ خاص ہیں مخلوق کے ہاتھوں کے مشابہ نہیں ہیں۔ وہ اسی کی ذاتِ اقدس کے لائق ہیں، ان کی کیفیت اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔اہل بدعات گمراہ لوگ بزعم خویش اسے تشبیہ سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ہاتھوں کی نفی کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں: یہ ہرگز تشبیہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے ہاتھوں کے درمیان کوئی مشابہت نہیں۔ یہ تو صرف اسی کے نزدیک تشبیہ ہے جسے کوئی عقل نہیں اور جو کلام اللہ کو سمجھتا نہیں، اہل علم کے لیے یہ مشکل نہیں۔ ***** |