مشابہ ہوگا مگر لطف اور ذائقہ میں مختلف۔ یہ نہ ہوگا کہ اس عیش و عشرت اور راحت میں اُن کو تجرد کی تکلیف ہو بلکہ ان کے لئے پاک بیویاں ہوں گی جو ان کی آسائش اور راحت کی موجب بنیں گی ایسی راحت اور آسائش اگر چند روزہ ہو تو کہا جاتا ہے
چلنا ہے رہنا نہیں چلنا بسوے بیش
ایسی سیج سہاگ پر کون گندھاوے سیس
مگر جنتی لوگوں کا عیش چند روزہ نہ ہوگا اور نہ وہ کسی مدت بعد ان باغوں سے نکالے جائیں گے بلکہ وہ اُن باغات میں بعیش و عشرت ہمیشہ رہیں گے۔ یہ تو ہوا دونوں گروہوں منکروں اور مومنوں کا انجام، چونکہ لوگوں کو سمجھانے میں بعض مرتبہ کسی قسم کی مثال بھی دینی پڑتی ہے جو مفید ہوتی ہے اس لئے اس ہدایت نامہ (قرآن شریف) میں بھی مثال دی جاتی ہے اور آیندہ بھی دی جائے گی اس لئے اللہ تعالیٰ جو اس ہدایت نامہ کا بھیجنے والا ہے بغرض تفہیم کسی قسم کی مثال[1] دینے سے نہیں رکتا وہ مثال مچھر جیسے حقیر جانور کی ہو یا اس سے زیادہ کسی بڑے کی، کیونکہ مثال میں خوبی یہ ہونی چاہیے کہ وہ مضمون سمجھنے میں مفید ہو۔ یہ نہیں کہ وہ چیز حقیر ہے اس لیے قابل ذکر نہیں۔ اس لیے خدا کی تمثیل دینے کا نتیجہ بھی وہی ہوتا ہے جو ہونا چاہئے۔ یعنی پھر جو لوگ ایماندار ہوتے ہیں اُن کا مقصد چونکہ کلام کا سمجھنا ہوتا ہے اس لئے وہ مثال کو سنتے ہی جانتے ہیں کہ یہ مثال بالکل ٹھیک سچ اور خدا کی طرف سے ہے۔ کیونکہ اس سے ان کو مضمون خوب سمجھ میں آتا ہے
|