٭{ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا} [البقرۃ: 61]
٭{ وَ اذْکُرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ} [البقرۃ: 63، 64]
ان آیات میں اشارہ بعید کی طرف نہیں ہے بلکہ اسی مضمون کی طرف ہے جو ’’ذٰلک‘‘ سے پہلے متصل مذکور ہیں۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ، جن کا فارسی ترجمہ اصح التراجم سمجھا گیا ہے، ان آیات میں اشارہ قریب کی طرف لفظ ’’ایں‘‘ کے ساتھ فرماتے ہیں۔
اگر آپ ہماری نہ سنیں نہ شاہ صاحب کی سنیں تو ہم آپ کو آپ کے سابق عالم بڑے پادری (عمادالدین متوفی) کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ آپ دیکھیے انھوں نے بھی ان مواقع میں وہی ترجمہ اختیار کیا ہے جو ہم نے کیا ہے ۔ بلکہ اصل متنازع مقام {ذٰلِکِ الْکِتَابُ} کا ترجمہ بھی یوں کیا ہے:
’’اس کتاب میں شک نہیں‘‘
پادری صاحب! اپنی غرض کے لیے دوسرے کے کلام کو بگاڑنا اہل علم کی شان سے بعید ہے
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر ترے عہد سے پہلے تو یہ دستور نہ تھا
اسی قسم کی کئی ایک مثالیں قرآن مجید میں ملتی ہیں۔ پس اس ’’ذٰلک‘‘ کو بعید کے لیے کہنا، پھر اس سے عظمتِ شان مراد لینا ہمارے نزدیک محض تکلف اور اصطلاحِ قرآن سے دور ہے۔ اسی لیے علم نحو کی مستند اور درسی کتاب شرح جامی میں لکھا ہے کہ ذا۔ ذاک اور ذٰلک ایک دوسرے کے مقام پر بولے جاتے ہیں۔ اسی لیے مصنف کافیہ نے اس تفریق کو پسند نہیں کیا۔[1] فافہم
|