پوری) تول۔ ہم کسی شخص پر اس کی سمائی سے بڑھ کربوجھ نہیں ڈالتے۔ اور (گواہی دینی ہو یا فیصلہ کرنا پڑے) جب بات کہو تو گو (فریق مقدمہ اپنا) قرابت مند ہی (کیوںنہ) ہو انصاف (کاپاس) کرو۔ (جو) عہد (کرچکے ہو اُس) کو پورا کرو۔ یہ ہیں وہ باتیں جن کا تم کو خدا نے حکم دیا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ اور (اس نے ) یہ (بھی ارشاد فرمایا ہے) کہ یہی ہمارا سیدھا راستہ ہے تو اسی پر چلے جائو اور (دوسرے) رستوں پر نہ پڑنا کہ یہ تم کو خدا کے راستے سے بھٹکا کر تتر بتر کر دیں گے۔ (غرض) یہ (سب وہ باتیں) ہیں جن کا خدا نے تم کو حکم دیا ہے تا کہ تم پرہیز گار بن جائو۔‘‘
بغور دیکھا جائے تو کامل انسان وہی ہے جو ان سب فرائض اور حقوق کو باحسن طریق ادا کرے۔ انہی تعلقات کے فرائض ادا کرنے کی دعا اس سورۃ میں سکھائی گئی ہے، یعنی یہ سکھایا گیا ہے کہ خدا سے صراط مستقیم پر چلنے کی درخواست کرو۔ درخواست کا طریق بھی از راہ مہربانی خود ہی سکھایا، یعنی یہ سورت بطور مسودہ عرضی نازل فرمائی ہے۔ اے بندو! یوں کہا کرو:
’’میںؔ ا س کام کو اللہ رحمن رحیم کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں۔ وہ اپنی حمایت کی طفیل میرا کام انجام کو پہنچائے۔ شروع مطلب سے پہلے میں اعتراف کرتا ہوں کہ دنیا میں جس قدر خوبیاں ہیں اُن سب کا مالک یعنی سر چشمہ اللہ کی ذات ہے، کسی مظہر میں حسن جلویٰ نما ہے تو اُس کا خالق بھی خدا ہے، کسی مظہر میں سخاوت رونما ہے تو اُس کا موصوف بھی دراصل اللہ ہے۔ اسی طرح صنعت،حرفت وغیرہ جتنی صفات حسنہ دنیا میں نظر آتی ہیں ان سب کا مخرج چونکہ خدا کی ذات ہے اس لیے سب صفات اللہ ہی کے لیے ہیں۔ دنیا کو سب سے زیادہ خدا کی جس صفت
|