ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں صبح کی نماز پڑھائی تو اس میں سورہ مؤمنون کی تلاوت شروع کی جب سیدنا موسیٰ و ہارون یا عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر تک پہنچے تو آپ کو کھانسی آئی جس پر آپ نے رکوع فرما دیا ۔[1] یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ شروع سورتوں سے تلاوت کرنا مسنون ہے اور یہ بھی کہ سورت کو دو رکعتوں پر تقسیم کرنا جائز ہے۔ ٭ شبیب ابو روح[2] ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجرکی نماز میں سورہ روم پڑھی تو آپ پہ قراءت خلط ملط ہونے لگ گئی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ نے فرمایا ’’ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو ہمارے ساتھ نماز تو پڑھنے آجاتے ہیں لیکن مکمل طہارت کا خیال نہیں کرتے انہی لوگوں کی وجہ سے ہمیں قرآن میں اختلاط ہونے لگ جاتا ہے۔ [3] سماک بن حرب[4] اہل مدینہ کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے فجر کی نماز پڑھی تو ﴿قٓ وَالْقُرآنِ اْلمَجِیدِ﴾ اور ﴿یٰسِیْن وَالْقُرآنِ الْحَکَیِمْ﴾ کی قراءت سنی۔ [5] جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نمازمیں ﴿ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِیْدُ﴾ کی تلاوت فرماتے، اور آپ کی نماز ہلکی ہوتی تھی۔ |