اگر مجھے پتہ ہوتا کہ میں ستر سے زائد مرتبہ دعائے مغفرت کروں گا تو ان کی مغفرت کر دی جائے گی تو میں ان کے لیے ستر سے بھی زائد مرتبہ دعائے مغفرت کرتا۔‘‘ پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی، جنازے کے ہمراہ گئے اور تدفین تک وہیں ٹھہرے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ مجھے خود پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو اپنی جرأتِ کلام پر بڑی حیرت ہوئی۔ بعدازاں تھوڑے ہی عرصے میں یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ ﴾ ’’ان (منافقین) میں سے جوبھی مرجائے، تم کبھی اس کی نماز جنازہ مت پڑھنا نہ اس کی قبر پر ٹھہرنا۔‘‘ [1] چنانچہ ابن ابی کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو کسی منافق کی نمازِ جنازہ پڑھی نہ اس کی قبر پر ٹھہرے۔ یہ تھے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جن کے متعلق عہدِ نبوی کی ایک خاتون نے کہا تھا: ’’وہ تو گویا رب تعالیٰ کو دونوں آنکھوں سے دیکھتا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فرمایا تھا: ’’اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان پر حق جاری کر دیا اور اس کے دل میں حق کا القا کر دیا ہے۔‘‘ [2] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق یہ بھی فرمایا تھا: ’’اگلی امتوں میں ایسے افراد ہو گزرے ہیں جنھیں الہام ہوتا تھا۔ میری امت میں اگر ایسا کوئی فرد ہے تو وہ عمر بن خطاب ہے۔‘‘ [3] |