غزوۂ خندق میں مشرکین مکہ اور ان کے حلیف قبائل شکست فاش سے دو چار ہوئے۔ بعدازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں منادی کرادی کہ جو آدمی یہ اعلان سن رہا ہے اور وہ مطیع و تابع فرمان ہے، اسے چاہیے کہ نماز عصر دیار بنو قریظہ میں ادا کرے۔ دراصل آپ یہود بنی قریظہ کو ان کی بد عہدی کا مزہ چکھانا چاہتے تھے۔ مسلمانوں نے ارشاد نبوی کی تعمیل کرتے ہوئے فوراً دیار بنی قریظہ کا رخ کیا۔ ہر اول دستے کے سالار حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے۔ علم نبوی ان کے ہاتھ میں تھا۔ وہ یہود بنو قریظہ کے قلعے کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہودیوں کی بد زبانیاں ان کے کانوں میں پڑیں۔ وہیں سے پلٹ آئے۔ راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی جو مسلمانوں کے جلو میں دیار بنی قریظہ کی طرف رواں دواں تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! اگر آپ ان خبیثوں کے قریب نہ جائیں تو میں سمجھتا ہوں کوئی مضائقہ نہیں۔ فرمایا کیوں۔ میرا خیال ہے تم نے ان کی بدزبانیاں سن لی ہیں۔ عرض کیا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! فرمایا اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو ایسا کچھ نہ کہتے۔ آپ ان کے قلعے کے قریب گئے تو بآواز بلند کہا: ارے بندروں کے بھائیو! کیا اللہ نے تمھیں ذلیل و رسوا کیا اور تم پر اپنا عذاب نازل کیا؟!‘‘ انھوں نے جواب دیا کہ ابوالقاسم! آپ اس امر سے ناواقف تو نہیں۔ مسلمانوں نے پچیس روز تک ان کے قلعوں کا محاصرہ کیے رکھا۔ آخر انھوں نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر ہتھیار ڈال دیے۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ دور جاہلیت میں ان کے حلیف تھے۔ انھوں نے فیصلہ کیا |