نے بھیجا ہوتا تو وہ اہل مصر کے ساتھ ساتھ کبھی نہ چلتا اور نہ ویسی مشکوک حرکتیں کرتا کہ فوراً پکڑا جاتا بلکہ اہل مصر کو تو اس کی ہوا بھی نہ چھوتی۔ تیسری بڑی دلیل اس خط کے مزعومہ ہونے کی یہ ہے کہ امیرالمومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا عامل مصر میں تھا ہی نہیں وہ تو وہاں سے روانہ ہو کر فلسطین میں عقبہ تک پہنچ چکا تھا اور اس نے امیرالمومنین کو روانگی کی اطلاع بھی کردی تھی۔ اس کا قاصد اس وقت مدینہ میں موجود تھا۔ بلوائیوں نے یہ تمام باتیں نہیں سنیں نہ انھیں سننی تھیں۔ انھوں نے سب سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مسجد میں آنے سے روکا، پھر آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ صحابۂ کرام دفاع کے لیے آئے تھے لیکن آپ نے انھیں لڑائی کرنے سے منع کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے باعث آپ کو یقین تھا کہ اب آپ کو شہید کردیا جائے گا۔ آپ چاہتے تھے کہ آپ کی و جہ سے کشت و خون نہ ہو۔ محاصرہ چالیس روز جاری رہا۔ بلوائیوں نے اس دوران میں کھانے پینے کا سامان بھی گھر میں نہیں جانے دیا۔ آخر 18 ذی الحج 35ھ کو بلوائی گھر میں گھس آئے اور امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو نہایت بے دردی سے شہید کردیا۔ آپ کا دفاع کرتے ہوئے حضرت مغیرہ بن اخنس رضی اللہ عنہ اور آپ کا ایک غلام بھی شہید ہوگئے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت نائلہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ کی انگلیاں کاٹ ڈالی گئیں، ان سے بد تمیزی کی گئی اور پہلوؤں میں تلوار کے چرکے لگا کر شدید زخمی کر دیا گیا۔ جن بلوائیوں نے گھر میں گھس کر آپ پر حملہ کیا ان میں سودان بن حمران، قتیرہ سکونی، کلثوم تجیبی اور دیگر سبائی شامل تھے۔ سودان بن حمران، قتیرہ اور کلثوم آپ کے غلاموں کے ہاتھوں مارے گئے۔ |