نے اس خط سے لا علمی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ یا تو دو گواہ لائیے یا مجھ سے اللہ کی قسم لے لیجیے کہ میں نے یہ خط لکھا، نہ املا کرایا نہ مجھے اس کا علم ہے۔ بلوائیوں نے آپ کی بات نہ مانی۔ وہ خط واقعی جعلی تھا جس کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ اہل کوفہ و بصرہ کو بھی اس خط کا پتہ تھا حالانکہ وہ اہل مصر سے الگ ہو کر اپنے شہروں کا رخ کر چکے تھے اور ان کے درمیان میلوں کی مسافت تھی۔ اہل کوفہ و بصرہ مدینہ سے مشرق کی طرف سفر کررہے تھے اور اہل مصر مغرب کی طرف۔ اس کے باوجود دونوں قافلے ایک ساتھ مدینہ آگئے۔ در اصل جن لوگوں نے بھاڑے کا ایک ٹٹو اہل مصر کی طرف روانہ کیا تھا انھی نے اپنا ایک اور گماشتہ اہل کوفہ وبصرہ کی طرف روانہ کیا تھا کہ انھیں مزعومہ خط کے بارے میں بتائے اور واپس لے آئے۔ یہی و جہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر ان کا بھانڈا بیچ چوراہے کے پھوڑ ڈالا تھا کہ اہل کوفہ وبصرہ! تمھیں کیسے معلوم ہوا کہ مصریوں نے یہ خط پکڑا ہے؟ ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو آپ نے فرمایا: ’’حقیقت یہ ہے کہ تم اپنے منصوبے کے مطابق یونہی تھوڑا سا چل کر واپس آگئے ہو۔‘‘[1]آپ نے قسم کھا کر کہا کہ بخدا! یہ تمام منصوبہ مدینہ میں بنایا گیا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اشتر نخعی اور حکیم بن جبلہ اہل کوفہ وبصرہ کے ہمراہ واپس جانے کے بجائے مدینہ منورہ میں ٹھہر گئے تھے۔ غالب گمان یہی ہے کہ خط کا منصوبہ انھی کا تشکیل کردہ تھا۔ دوسری بڑی دلیل اس خط کے جعلی ہونے کی یہ ہے کہ اگر وہ قاصد واقعی امیر المومنین |