Maktaba Wahhabi

224 - 241
عامر بن کریز رضی اللہ عنہ کو دوبارہ بصرہ کا گورنر بنایا جائے اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو بدستور کوفہ کا گورنر رہنے دیا جائے۔ امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام گروہوں سے مصالحت کی اور انھیں پورا یقین دلایا کہ ان کی شرائط تسلیم کی جائیں گی۔ (ان شرائط کی کوئی حیثیت نہیں تھی کیونکہ وہ لوگ سبائیوں کے پروپیگنڈے سے متأثر تھے ورنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا طرز حکومت تو نہایت صاف ستھرا اور عدل وانصاف پر مبنی تھا۔) لڑائی کا جب کوئی جواز نہ رہا تو تمام وفود اپنے اپنے علاقوں کی طرف پلٹ گئے۔ لیکن فتنہ پردازوں کو یہ بات کیونکر ہضم ہوتی۔ انھیں اپنا منصوبہ ناکام ہوتا نظر آیا۔ انھوں نے فوراً نیا منصوبہ تشکیل دیا جس نے صلح کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ اہل مصر واپسی کے راستے پر گامزن تھے کہ اُنھیں ایک آدمی نظر آیا جو کبھی ان کے قافلے میں شامل ہوجاتا، کبھی ان سے جدا ہوجاتا اور یہ تاثر دیتا کہ وہ ان کی آنکھ بچا کر بھاگ لینا چاہتا ہے۔ گویا وہ خود دعوت دے رہا تھا کہ اسے پکڑ لیا جائے۔ قافلے والوں نے اسے پکڑ لیا۔ اس سے پوچھا کہ تم کون ہو اور تم کہاں کا ارادہ رکھتے ہو۔ اس نے کہا کہ میں امیر المومنین کا قاصد ہوں اور مصر کے عامل کی طرف امیر المومنین کا پیغام لے کر جارہا ہوں۔ انھوں نے اس کی تلاشی لی تو ایک خط برآمد ہوا جو امیر المومنین کی طرف سے عامل مصر کے نام تھا۔ اس پر امیر المومنین کی مہر ثبت تھی۔ اس میں مصر کے عامل کو لکھا گیا تھا کہ شر پسند جونہی مصر پہنچیں، انھیں سولی پر لٹکا دینا یا قتل کردینا۔ وہ خط لے کر مصری گروہ دوبارہ مدینہ آگئے۔[1] ان کے ساتھ ہی اہل کوفہ و بصرہ بھی مدینہ آگئے۔ امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
Flag Counter