مطالبہ تسلیم کیا اور ان وزرا کو تبدیل کردیا۔ سبائی گماشتوں کا یہ مقصد تو تھا نہیں کہ مدینہ آئیں، کچھ مطالبات کریں، وہ مطالبات تسلیم کر لیے جائیں تو واپس چلے جائیں۔ ان کا مقصد تو کچھ اور تھا۔ انھوں نے ملک بھر کے بلوائیوں کو پیغام بھیجا کہ پیش قدمی کا وقت آن پہنچا، چنانچہ کوفہ و بصرہ اور مصر کے بلوائی حاجیوں کا روپ دھار کر بارہ گروہوں میں روانہ ہوئے۔ ان کا بڑا شیطان عبداللہ بن سبا مصریوں کے ہمراہ تھا۔ ان کے چار گروہ عبدالرحمن بن عُدیس بلوی، کنانہ بن بشر تجیبی، سودان بن حمران سکونی اور قتیرہ بن فلان سکونی کے زیر قیادت آگے بڑھ رہے تھے۔ ان چار شیطانوں کا قائد مہاشیطان غافقی بن حرب عکی تھا۔ ان کی تعداد ایک ہزار تھی۔ کوفہ سے ایک ہزار کی تعداد میں جو چار گروہ روانہ ہوئے تھے، ان کے سردار زید بن صوحان عبدی، اشتر نخعی، زیاد بن نضر حارثی اور عبداللہ بن اصم جیسے بڑے شیطان تھے۔ ان سب کا رئیس عمرو بن اصم تھا۔ بصرہ کے ایک ہزار سر کش بھی چار گروہوں میں تقسیم ہو کر روانہ ہوئے تھے۔ ان کے بڑے شیاطین یہ تھے، حکیم بن جبلہ عبدی، ذریح بن عباد عبدی، بشر بن شریح قیسی اور ابن محرش، ان سب کا سربراہ حرقوص بن زہیر سعدی تھا۔ ابن سبا ان کے ہمراہ خوش و خرم جارہا تھا کیونکہ اسے اپنا شیطانی منصوبہ کامیاب ہوتا نظر آرہا تھا۔ شوال 35ھ میں یہ ملعون افراد مدینہ منورہ کے گردو نواح میں جمع ہوچکے تھے۔[1] امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو ان سے مذاکرات کرنے کے لیے بھیجا۔ بلوائیوں نے وہی گھسی پٹی شرائط پیش کیں جن کے متعلق ان کی ذہن سازی کی گئی تھی۔ انھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حضرت عبداللہ بن |