Maktaba Wahhabi

222 - 241
حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ شام جانے سے پہلے حاضر خدمت ہوئے اور دو تجاویز پیش کیں۔ انھوں نے عرض کی: ’’یا امیر المومنین! حالات ساز گار نہیں اور اس سے پہلے کہ پانی سر پر سے گزر جائے، آپ میرے ساتھ شام تشریف لے چلیے۔ وہاں میری عملداری ہے۔ وہاں آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچائے گا۔‘‘ خلیفہ ثالث نے ان کی یہ تجویز مسترد کردی اور فرمایا: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسائیگی کسی قیمت پر نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ’’تب میں آپ کی حفاظت کے لیے شام سے ایک فوجی دستہ بھیج دیتا ہوں۔ وہ یہاں رہ کر متوقع خطرات سے نمٹے گا اور ہنگامی صورتحال میں آپ کا اور اہل مدینہ کا دفاع کرے گا۔‘‘ خلیفۂ ثالث نے ان کی یہ تجویز بھی منظور نہیں کی اور فرمایا: ’’نہیں! اس سے مدینہ منورہ کی معیشت متأثر ہوگی۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوسیوں کو اور مہاجرین و انصار کو کسی تنگی میں نہیں ڈالنا چاہتا۔‘‘[1] اس دوران میں آپ کو سبائیوں کے خطرناک عزائم کا پتہ چلا تو آپ نے صحابۂ کرام سے مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ صحابۂ کرام نے مشورہ دیا کہ شر پسندوں کو قتل کر ڈالنا چاہیے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں، جہاں تک ممکن ہوا، ہم لڑائی سے گریز کریں گے۔[2] سبائیوں کے سردار مدینہ پہنچ چکے تھے۔ آپ نے انھیں بلایا اور صحابۂ کرام کے رو برو ان کے تمام اعتراضات کے شافی جواب دیے۔ صحابۂ کرام نے آپ کی تصدیق کی اور آپ کے جوابات کو درست قرار دیا۔ سبائی سرداروں نے بعض وزرا کی برطرفی اور ان کے بجائے دوسرے وزرا کی تعیناتی کا بھی مطالبہ کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کا
Flag Counter