کو کوفے کا وزیر بنادیا۔ اب تمھیں بھی چاہیے کہ تم اپنا وعدہ پورا کرو اور شرارتوں سے باز آجاؤ۔[1] اس دوران میں آپ نے صحابۂ کرام کے مشورے سے مختلف شہروں میں تحقیقاتی ٹیمیں روانہ کیں تاکہ وہ اُن افواہوں کی حقیقت معلوم کرکے بتائیں جو ابنِ سبا اور اُس کے گماشتوں نے پھیلائی تھیں۔ تحقیقاتی ٹیموں نے رپورٹ دی کہ تمام ملک کے حالات معمول پر ہیں۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ تمام افواہیں جھوٹی ہیں۔ امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پھر بھی مطمئن نہیں تھے۔ آپ بھانپ گئے تھے کہ اندرون خانہ کھچڑی پک رہی ہے اور دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ آپ نے اپنے تین وزرا حضرت عبداللہ بن عامر بن کریز رضی اللہ عنہ ، حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کو فوری طور پر دارالخلافہ بلایا۔ دو سابقہ وزرا حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو بھی بلا بھیجا۔ یہ مجلس مشاورت نہایت خفیہ رکھی گئی تھی۔ آپ نے فرداً فرداً تمام وزرا سے حالات حاضرہ کے متعلق مشورہ طلب کیا۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ جہاں نرمی کی ضرورت ہے، وہاں ن رمی برتیے، جہاں سختی کی ضرورت ہے، وہاں سختی سے کام لیجیے۔ معاشرے میں اچھے برے سبھی آدمی ہیں۔ آپ سب سے نرمی ہی برتتے ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ فتنوں کا دروازہ کھلنے والا ہے اور اب تک اگر کسی شے نے اسے بند کر رکھا ہے تو وہ نرمی ہی ہے۔ میں نرمی ہی کروں گا۔ یہ کہہ کر آپ نے مجلس مشاورت برخاست کردی اور وزرا کو اپنے اپنے علاقوں میں جانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ |