چیت نہیں ہوئی تھی۔ عوام کو بھڑکانے کے لیے یہ سبائیوں کی ایک چال تھی۔ مسجد میں شور برپا ہوگیا۔ ادھر یزید بن قیس نے اعلان کیا کہ میں سعید بن عاص کو کوفے میں داخل نہیں ہونے دوں گا۔ حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ بعض سرکاری معاملات کے سلسلے میں مشاورت کے لیے امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مدینہ منورہ گئے ہوئے تھے۔ کوفے میں وہ حضرت عمرو بن حریث کو اپنا نائب مقرر کرگئے تھے۔ سبائیوں اور کوفے کے بیوقوفوں نے یزید بن قیس کی ہاں میں ہاں ملائی اور ایک ہزار کے قریب افراد حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کا راستہ روکنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔[1] حضرت ابن عاص رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے روانہ ہو کر کوفے کے قریب پہنچے تو سبائیوں نے جو ان کا راستہ روکے کھڑے تھے، ان سے کہا کہ ہمیں آپ کی ضرورت نہیں۔ آپ واپس چلے جائیے۔ ہم آپ کو کوفے میں نہیں آنے دیں گے۔ جائیے، جا کر خلیفہ سے کہہ دیجیے کہ ابوموسیٰ اشعری کو کوفے کا والی بنائیں۔ حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ نے نہایت ہوش مندی سے کام لیا اور چوں چرا کیے بغیر واپس چل دیے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر امیرالمومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھیں باغیوں کے تازہ ترین حالات سے آگاہ کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ کیا وہ خلیفۂ وقت کے خلاف بغاوت پر اتر آئے ہیں۔ حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ نے جواباً عرض کیا کہ وہ کہتے ہیں: ابوموسیٰ اشعری کو کوفے کا وزیر بنایا جائے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے باغیوں کا مطالبہ تسلیم کیا اور بلا تاخیر حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو ان کا والی بنادیا۔[2] آپ نے اہل کوفہ کو خط لکھا کہ دیکھو میں نے تمھارا مطالبہ پورا کیا اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ |