جس شقی القلب نے آپ کو شہید کیا تھا اسے موت الاسود کہا جاتا تھا۔ وہ بچ نکلا تھا۔ قریش کے چار نوجوان اس روز آپ کا دفاع کرتے ہوئے زخمی ہوئے تھے: حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، حضرت محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ اور حضرت مروان بن حکم رحمہ اللہ ۔[1]
تیسرے خلیفۂ راشد کا قتل بہت بڑا اور نہایت بہیمانہ اقدام تھا۔ تاریخ اسلام میں اس سے بڑا فتنہ پیش نہیں آیا۔ اس کے نتیجے میں امت ہمیشہ کے لیے دھڑوں میں بٹ گئی اور فتنوں کا دروازہ چوپٹ کھل گیا۔ اہل اسلام ان فتنوں کے حصار سے آج تک نہیں نکل پائے۔
|