گیا) تاکہ اللہ جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کرے۔ اگر وہ (مومن اور کافر) الگ الگ ہوتے تو ان میں جو کافر تھے، ہم انھیں نہایت دردناک عذاب دیتے۔‘‘ [1] ان آیات کی تفسیر لکھتے ہوئے سید قطب رقمطراز ہیں: ’’آج چودہ سو سال بعد میں جب اس مقدس لمحے کا تصور کرتا ہوں، جس وقت اللہ تعالیٰ نے رسول امین کو اہل ایمان کے متعلق بتایا کہ وہ ان سے راضی ہے، وہ ان کے طرز عمل سے خوش ہوا ہے، میں اس بے مثل لحظے کا تصور کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جب یہ مژدۂ جاں فزا ملا ہوگا تو ان کی خوشی اور سر شاری کا کیا ٹھکانہ ہوگا۔ ان باسعادت افراد کو جب یہ آیات پڑھ کر سنائی گئی ہوں گی تو ان میں سے ہر ایک کو اطمینان و سکون کا بے طرح احساس ہوا ہوگا۔ اعتماد و یقین کی لہریں پورے بدن میں دوڑ گئی ہوں گی۔ ایمان و ایقان کی بالیدگی روح کی گہرائیوں تک اتر گئی ہوگی۔‘‘[2] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت رضوان میں شریک نہیں تھے کیونکہ انھیں مکہ میں ٹھہرا لیا گیا تھا۔ لیکن چونکہ وہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر جنگ بندی میں شریک ہوئے تھے، اس لیے انھیں خاطر خواہ انعام ملنا چاہیے تھا۔ ان کے انعام کی صورت یہ ہوئی کہ ان کی طرف سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت کی۔ آپ نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر رکھا اور فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔ آپ اپنے رفقائے کرام کو بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ آپ نے ہمیشہ ان کی عزت افزائی کی اور انھیں بلند مقام و مرتبہ کا مستحق گردانا۔ بیعت رضوان کے تین برس بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ رومیوں |