سے نبرد آزمائی کی تیاری کریے۔ اس غزوے میں بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا فیاضانہ کردار کھل کر سامنے آیا۔ اس دریادلی سے روپیہ خرچ کیا کہ مثال نہیں ملتی۔ مسلمانوں کو در اصل اطلاع ملی تھی کہ نصرانی عرب، شاہ روم ہرقل کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منصوبہ بنایا کہ وہ تو ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں یا نہیں، ہمی آگے بڑھ کر ان سے دو دو ہاتھ کیے لیتے ہیں۔ سخت گرمی کا موسم تھا۔ ہر سو قحط چھایا تھا۔ لوگ نہایت تنگدستی کا شکار تھے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب ثروت کو تو جہ دلائی کہ جنگ کی تیاری کے لیے آپ کو مقدور بھر روپیہ اور ساز وسامان فراہم کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین پر دولت مند تو رہے ایک طرف، ناداروں نے بھی جو کچھ کمایا تھا، لا کر پیش کردیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے گھر کا تمام سامان لا کر قدموں میں ڈال دیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تین سو اونٹ پالانوں سمیت پیش کردیے۔ بعد ازاں ہزار اشرفیاں لا کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جھولی میں ڈال دیں۔ آپ ان اشرفیوں کو الٹتے پلٹتے اور کہتے جاتے: ’’آج کے بعد عثمان کا کوئی عمل انھیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘[1] وفات نبوی کے بعد بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فیاضی کا یہ طریقہ اپنائے رکھا اور مسلمانوں کی فلاح و بہود کے منصوبوں پر برابر خرچ کرتے رہے۔ اس سلسلے کا ایک یاد گار واقعہ یہ ہے کہ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ سخت قحط پڑا۔ قحط کے دوران میں ایک روز لوگ خلیفۂ رسول کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ رسول اللہ کے خلیفہ! آسمان نے بارش نہیں |