Maktaba Wahhabi

140 - 241
نہیں، تم ہو۔‘‘ فرمایا: ’’منہ سے اچھے لفظ نکالو۔ جب تم امیرالمومنین کے ہاں جاؤ گی تو ان شاء اللہ مجھے بھی وہیں پاؤ گی۔‘‘ یہ تھے رعایا کے امانت دار کفیل! جو رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے دن دیکھتے تھے نہ رات۔ حکمران اگر ایسا نہ ہو تو تصور کریے کہ وہ کیسا ہوگا! حکومت کی ذمے داری دراصل بہت بھاری ذمے داری ہے۔ اس ذمے داری کا بار بڑے آدمی ہی اٹھا پاتے ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ فراخدلی اور وسعت ظرفی کی بیش بہا نعمت سے بہرہ مند کرتا ہے۔ وسعت ظرفی اور دریادلی ہی کی بدولت وہ لوگوں پر حکومت کرتے ، ان کی ضروریات کا خیال رکھتے اور ان کی فلاح و بہبود کے کام کرتے ہیں۔ وہ حکمران جو تخت حکومت پر براجمان ہو کر عیش کرتے اور عوام کے حقوق پامال کرتے ہیں، وہ تو چور اچکے ہوتے ہیں جو لوگوں کو غافل پاکر یا انھیں ورغلا کر تخت حکومت پر قابض ہوجاتے ہیں۔ ایسے حکمران، عوام کو فاقوں میں مبتلا کرکے بلکہ عوام کا پیٹ کاٹ کے اپنے پیٹ کا دوزخ بھرتے اور اپنے خزانوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ پتھروں کی سختی تو کوئی سختی نہیں، ایسے افراد کے دل پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی بات نہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عوام جب خود پر کی گئی زیادتیوں کا حساب لینے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو وہ بہت کڑا حساب لیتے ہیں۔ تب ایسے ظالم حکمران بہت پچھتاتے ہیں جبکہ پچھتاوا کام نہیں آتا۔ اب آیئے خلیفۂ عادل حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شبانہ گردی کا ایک اور واقعہ پڑھتے ہیں۔ کتاب ’’عِقدُالفرید‘‘ کے مؤلف نے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک رات گشت کرتے کرتے مدینہ کے باہر میدان میں جانکلے۔ وہاں انھیں بالوں کا ایک خیمہ
Flag Counter