’’تو ہانڈی میں کیا ہے؟‘‘ ’’پانی۔ ان کے بہلانے کو چڑھا رکھی ہے تاکہ یہ سو جائیں۔ہمارا اور عمر کا فیصلہ اللہ ہی کرے گا۔‘‘ ’’اللہ تجھ پر رحم کرے۔ عمر کو تمھارے بارے میں کیا معلوم!‘‘ ’’اچھا!‘‘ عورت نے قدرے ناراض ہو کر کہا۔ ’’ہم پر حکومت تو کرتا ہے، پھر ہم سے غافل بھی رہتا ہے۔‘‘ میری طرف متوجہ ہوئے۔ فرمایا: ’’چلو، چلتے ہیں۔‘‘ ہم بے تحاشا دوڑتے ہوئے آئے۔ سیدھے دارالدقیق میں پہنچے۔ آٹے کا ایک تھیلا اور تھوڑی چربی نکالی۔ فرمایا: ’’یہ سامان مجھ پر لاد دو۔‘‘ عرض کیا: ’’میں اٹھائے لیتا ہوں۔‘‘ ڈانٹ کر فرمایا: ’’تیری ماں نہ رہے! قیامت کے دن بھی میرا بوجھ تو ہی تو اٹھائے گا۔‘‘ میں نے وہ سامان ان پر لاد دیا۔ بے تحاشا دوڑ پڑے۔ میں بھی دوڑ پڑا۔ وہاں پہنچے۔ سامان رکھا۔ آٹا نکالا اور عورت سے فرمایا: ’’تم آٹا چھڑکتی جاؤ۔ میں اسے پکاتا ہوں۔‘‘ ہانڈی تلے پھونک پھونک کر آگ دہکانے لگے۔ میں نے دیکھا، دھواں ان کی ڈاڑھی میں سے نکل رہا تھا۔ کھانا پک گیا تو انھوں نے ہانڈی چولھے پر سے اتاری اور بچوں کی ماں سے فرمایا: ’’کوئی برتن لاؤ۔‘‘ وہ پرات لے آئی۔ کھانا اس میں ڈالا اور فرمایا: ’’تم بچوں کو کھلاؤ۔ میں کھانا ٹھنڈا کرتا ہوں۔‘‘ بچے کھاپی کر سیر ہوگئے تو بچا ہوا کھانا وہیں چھوڑا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں بھی اٹھ گیا۔ وہ عورت کہنے لگی: ’’جزاک اللّٰہ خیر! حکومت کرنے کے لائق امیرالمومنین |