Maktaba Wahhabi

132 - 241
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ شراکت داری ہی سہی۔‘‘ امیرالمومنین نے زکاۃ کی اصل رقم اور آدھا منافع لیا اور بیت المال میں جمع کرا دیا۔ عبداللہ اور عبیداللہ دونوں نے آدھا منافع وصول کیا۔ [1] زکاۃ و صدقات کے روپیہ کے متعلق خلیفۂ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شدتِ احتیاط کا یہ عالم تھا کہ بیٹوں سے بھی یہ سوال کیا: ’’کیا ابوموسیٰ نے تمھاری طرح تمام لشکر کو قرض دیا تھا؟‘‘ یعنی اگر اس نے صرف تم دونوں کو قرض دیا تھا تو گویا اس نے تم سے امتیازی سلوک کیا۔ اور یہ امتیازی سلوک محض اس لیے کیا کہ تم دونوں امیرالمومنین کے بیٹے ہو۔ تم دونوں کو زکاۃ کا روپیہ قرض دینے کی بنیاد اگر یہی ہے اور سو فیصد یہی ہے تو عمر کے ہوتے ہوئے ایسا نہیں ہوسکتا۔ عمر کے ہوتے ہوئے تم دونوں اس امتیازی سلوک سے ہرگز فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔ یوں اقربا پروری کی تو گویا جڑکاٹ کر رکھ دی۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا طرزِ حکومت یہی تھا۔ خلیفہ بننے کے بعد وہ تاحیات اِسی روش پر چلتے رہے۔ ایک مرتبہ شاہِ روم کا ایلچی خط لے کر مدینہ میں حاضر خدمت ہوا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ نے کہیں سے ایک دینار قرض لیا، عطر خریدا، اسے ننھی بوتلوں میں بھرا اور ایلچی کے ہاتھ ملکۂ روم کو بھیج دیا۔ ملکۂ روم نے ان ننھی بوتلوں میں سے عطر نکالا اور ان میں ہیرے جواہر بھر کر ان کو واپس بھیج دیا۔ خلیفۂ ثانی کی اہلیہ کو وہ ننھی بوتلیں موصول ہوئیں تو انھوں نے ان کو گھر میں پڑے قالین پر الٹ دیا کہ دیکھیں تو، بدلے کے طور پر اُن
Flag Counter