دِنوں بصرہ کے امیر تھے۔ ابوموسیٰ اشعری نے ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا اور کہا: ’’اگر میرے بس میں ہوا کہ آپ دونوں کو کوئی فائدہ پہنچا سکوں تو میں ایسا ضرور کروں گا۔‘‘ پھر جیسے اُنھیں کچھ یاد آیا۔ بولے: ’’ارے ہاں! یہاں زکاۃ کا کچھ روپیہ پڑا ہے جو میں امیرالمومنین کی خدمت میں ارسال کرنا چاہتا ہوں۔ میں وہ روپیہ آپ کو قرض دے دیتا ہوں۔ آپ اس روپے سے عراقی مصنوعات خریدیے اور مدینہ میں جا کر بیچ دیجیے۔ اصل سرمایہ امیرالمومنین کی خدمت میں پیش کریے اور منافع خود رکھ لیجیے۔‘‘ دونوں نے اس تجویز پر صاد کیا اور زکاۃ کا روپیہ لے کر عراقی مصنوعات خرید لیں۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو لکھ بھیجا کہ آپ عبداللہ اور عبیداللہ سے زکاۃ کی رقم وصول کر لیجیے گا۔ وہ دونوں مدینہ پہنچے تو امیرالمومنین نے دریافت کیا کہ کیا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے تمھاری طرح تمام لشکر کو قرض دیا تھا۔ اُن دونوں نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اصل سرمایہ بھی دو اور تمام منافع بھی میرے حوالے کرو۔ عبداللہ تو خاموش رہے۔ عبیداللہ نے عرض کیا: ’’امیرالمومنین! آپ کا یہ مطالبہ درست نہیں۔ روپیہ تلف ہوجاتا یا کم ہوجاتا تو ہم ضامن تھے۔‘‘ امیرالمومنین نے اِس پر بھی حکم دیا کہ تمام روپیہ میرے حوالے کرو۔ اب کے بھی عبداللہ خاموش رہے اور عبیداللہ نے بحث تکرار کی۔ امیرالمومنین کے ایک مصاحب وہیں موجود تھے۔ انھوں نے عرض کیا: ’’یا امیرالمومنین! آپ اِس سودے کو شراکت داری میں کیوں نہیں بدل لیتے۔‘‘ |