ان کے لائق فرزندحضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کا بیان ہے: ’’میں نے چند اونٹ خریدے اور انھیں چراگاہ میں چھوڑ دیا۔ وہ خوب موٹے تازے ہوگئے تو انھیں بازار لے آیا۔ عمر رضی اللہ عنہ بازار میں آئے۔ پلے پلائے اونٹ دیکھے تو دریافت فرمایا: ’’یہ اونٹ کس کے ہیں؟‘‘ لوگوں نے بتایا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے۔ فرمایا: ’’واہ واہ، امیر المومنین کے بیٹے عبداللہ کے!‘‘ میں بھی وہیں قریب ہی تھا۔ کسی نے بتایا تو دوڑا آیا اور عرض کیا: ’’یا امیرالمومنین! کیا آپ نے مجھے یاد فرمایا؟‘‘ فرمایا: ’’یہ اونٹ کہاں سے آئے؟‘‘ عرض کیا: ’’دبلے پتلے اونٹ تھے۔ میں نے انھیں خریدا اور چراگاہ میں بھیج دیا۔ دوسروں کی طرح میں بھی ان سے منافع کمانا چاہتا ہوں۔‘‘ فرمایا: ’’ہاں بھئی! کیوں نہیں! تمھارے اونٹوں کی تو چراگاہ میں خوب آؤ بھگت ہوئی ہوگی۔ ارے! امیرالمومنین کے بیٹے کے اونٹ ہیں۔ انھیں اچھی طرح چراؤ۔ ارے! ہٹو! ہٹو! امیر المومنین کے بیٹے کے اونٹ آئے ہیں، انھیں پانی پلاؤ۔‘‘ پھر فرمایا: ’’عمر کے بیٹے عبداللہ! یہ اونٹ بیچ کر اپنا سرمایہ لو اور منافع بیت المال میں جمع کرادو۔‘‘ [1] اسلم کی روایت سے ایک اور واقعہ سنیے۔ عمر کے بیٹے عبداللہ اور عبیداللہ ایک لشکر میں شامل ہو کر عراق روانہ ہوئے۔ واپسی پر دونوں ابوموسیٰ اشعری کے ہاں گئے جو ان |