چہرے پر سیاہی پھروا دی اور اعلان کر دیا کہ کوئی آدمی اس کے پاس نہ بیٹھے اور نہ اس کے ساتھ کھانا کھائے۔ آپ کو پتہ چلا تو سخت ناراض ہوئے۔ اس آدمی کو جس کا یہ حشر کیا گیا تھا، دو سو درہم عنایت کیے اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ آئندہ اگر تم نے ایسا کیا تو میں تمھارے چہرے پر کالک مل کر تمھیں لوگوں میں گھماؤں گا۔ آپ نے انھیں حکم دیا کہ لوگوں سے کہو، اس کے پاس بیٹھا کریں اور اس کے ساتھ مل کر کھانا کھایا کریں۔ آپ نے ان سے یہ بھی فرمایا کہ شرابی کو توبہ کرنے کی مہلت دو۔ اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو اس کی گواہی بھی مقبول قرار دو۔ ایک اور آدمی کے متعلق آپ کو پتہ چلا کہ وہ شراب پیتا ہے۔ آپ نے اسے نصیحت کی تو وہ تائب ہوگیا۔ آپ نے حاضرین محفل سے فرمایا کہ جب تم اپنے کسی بھائی کو دیکھو کہ اس نے غلطی کی ہے تو اسے سیدھے راستے پر ڈالو اور سیدھے راستے پر چلنے میں اس کی مدد کرو۔ نیز اللہ سے دعا کرو کہ وہ تائب ہو جائے۔ اس کے خلاف شیطان کے ممد ومعاون مت بنو۔ عبدالرحمن کو زد و کوب کرنے کا یہ مقصد ہرگز نہیں تھا کہ وہ لوگوں کو دکھائیں، دیکھو جیسے دوسروں کو مارتا ہوں، اپنے بیٹے کو بھی مار رہا ہوں۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ ان کی اولاد اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی نہ کرے۔ اسلامی معاشرے میں انھیں محض اس وجہ سے امتیازی حیثیت حاصل نہ رہے کہ وہ خلیفہ کے بیٹے ہیں۔ خلیفہ کے بیٹے ہونے کی بنا پر وہ ایسا کوئی فائدہ نہ اٹھا پائیں جو دوسرے مسلمانوں کو حاصل نہیں۔ لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ نہایت سختی سے آڑے آتے ہیں اور رعایا کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں ذرہ بھر کو تاہی نہیں برتتے۔ |