Maktaba Wahhabi

128 - 241
پہنچا اور اپنے والد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے وہی شلوکا پہن رکھا تھا۔ چھوٹے پالان نے اُسے اتنا تھکا مارا تھا کہ اس سے چلا نہیں جاتا تھا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے گوشمالی کی: ’’عبدالرحمن! تم خطا پہ خطا کرتے ہو۔‘‘ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے مداخلت کی: ’’یاامیرالمومنین! جانے دیجیے۔ اس کے حد لگ چکی ہے۔‘‘ انھوں نے ابن عوف رضی اللہ عنہ کی بات پر مطلق دھیان نہیں دیا اور عبدالرحمن کو برابر زد و کوب کرتے رہے۔ عبدالرحمن بھی چلایا: ’’میں بیمار ہوں اور آپ مجھے مار کر دم لیں گے۔‘‘ وہ اس پر بھی مارتے رہے۔ بعد ازاں اسے قید کر دیا۔ وہ شدید بیمار پڑا اور بالآخر وفات پاگیا۔[1] صاحب عبقریات نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حدیں نافذکرنے کی جلدی نہیں ہوا کرتی تھی نہ وہ اس سلسلے میں بے صبری سے کام لیتے تھے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ملزم کو نفاذ حد سے بچانے کی ذرا سی بھی گنجائش نکل رہی تھی، پھر بھی انھوں نے حد جاری کردی۔ حدیں نافذ کرنے سے پہلے وہ ہمیشہ بڑی سوچ بچار کرتے تھے۔ ان کی ترجیح یہی ہوتی تھی کہ شک و شبہ کی بنیاد پر حد نافذ کرنے کے بجائے شک و شبہ کو حد کے معطل کرنے کی بنیاد بنائیں۔‘‘ نفاذِ حد میں انتہا پسندی پر بھی ناراضگی کا اظہار کرتے تھے۔ ان کے عامل حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ایک شرابی کے کوڑے تو لگائے ہی، اس کا سر بھی منڈوا ڈالا،
Flag Counter