نے عمر کو بتا دیا تو وہ مجھ سے سخت ناراض ہوں گے اور عجب نہیں کہ معزول ہی کر ڈالیں۔ میں ان دونوں کو گھر کے آنگن میں لے گیا اور ان کے حد لگائی۔ حد لگوانے کے بعد عبدالرحمن بن عمر بن خطاب رحمہ اللہ آنگن کے ایک گوشے میں جابیٹھا اور اپنا سر مونڈ ڈالا۔ ان کے ہاں حدود قائم کرنے کے ساتھ سرمونڈنے کی بھی روایت تھی۔ میں نے اس واقعے کے متعلق عمر کو ایک حرف بھی نہیں لکھا کہ ان کا خط آگیا جس میں مرقوم تھا: ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ کے بندے عمر کی طرف سے، عاصی (گناہ گار) بن عاص کے نام۔ ابن عاص! مجھے تم پر، تمھاری جرأت پر اور تمھاری طرف سے میرے عہد کی خلاف ورزی پر بہت تعجب ہوا۔ معلوم ہوتا ہے، میں تمھیں معزول کرکے رہوں گا۔ تم نے اپنے گھر میں عبدالرحمن کے حد لگائی۔ اپنے گھر میں ہی اس کا سر مونڈا۔ حالانکہ تم جانتے تھے، یہ میرے عہد کی خلاف ورزی ہے۔ عبدالرحمن تمھاری رعایا کا عام آدمی ہی تو ہے۔ تم اس سے بھی وہی سلوک کرتے جو دوسرے مسلمانوں سے روا رکھتے ہو لیکن تم نے کہا ہوگا کہ وہ امیرالمومنین کا لڑکا ہے حالانکہ تم بخوبی جانتے تھے کہ الٰہی حق کی ادائیگی کے سلسلے میں، میں کسی کی پروا نہیں کرتا۔ تمھیں جونہی میرا خط ملے، عبدالرحمن کو شلوکا پہنا، چھوٹے پالان پر بٹھا، روانہ کردو تاکہ اسے پتہ چلے کہ اس نے کیا ارتکاب کیا ہے۔‘‘ میں نے حسبِ ارشاد عبدالرحمن کو روانہ کر دیا۔ عمر کو ایک خط بھی لکھا جس میں یہ صفائی پیش کی کہ میں نے عبدالرحمن کو گھر کے آنگن میں ہی کیوں سزا دی۔ میں نے عرض کیا کہ بخدا ذمی ہو یا مسلمان، سبھی مجرموں پر گھر کے آنگن میں حد جاری کرتا ہوں۔ وہ خط میں نے عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ روانہ کیا۔ عبدالرحمن مدینہ |