لوگ بھی بچے، تم میں سے کوئی آدمی اس بات میں پڑا جس سے میں نے منع کیا ہے تو بخدا! میں اپنا قریبی ہونے کی و جہ سے اسے دوہری سزا دوں گا۔ اب جس کا دل چاہے، اقدام کرے اور جس کا دل چاہے، دو قدم پیچھے ہٹ جائے۔‘‘ یہ تھے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جو سب سے پیشتر اپنے اہل خانہ اور عزیز و اقارب کے لیے رول ماڈل تھے، پھر رعایا کے لیے۔ ان کے اہل خانہ یا عزیز و اقارب میں سے کوئی غلطی کرتا تو وہ زیادہ سختی سے باز پُرس کرتے۔ اس سلسلے کا ایک واقعہ مصر پر مامور ان کے عامل حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔ ایک دفعہ وہ دوستوں کی محفل میں تشریف فرما تھے کہ باتوں باتوں میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ذکر چھڑا۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے۔ اللہ کے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)اور ابوبکر( رضی اللہ عنہ ) کے بعد میں نے ان سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والا اور کوئی آدمی نہیں دیکھا۔ کوتاہی بیٹے سے ہوتی یا باپ سے، وہ اللہ کے معاملے میں کسی کالحاظ نہیں کرتے تھے۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مزید کہا کہ میں ایک روز مصر میں اپنے مکان پر تھا کہ میرا خادم آیا اور بولا: ’’عبدالرحمن بن عمر بن خطاب اور ابوسروعہ آئے ہیں۔ اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’ٹھیک ہے۔ انھیں اندر لے آؤ۔‘‘ وہ اندر آئے تو بہت مرجھائے ہوئے تھے۔ بولے: ’’ہم پر اللہ کی حد قائم کریے کیونکہ رات کو ہم نے اتنی شراب پی کہ نشے میں جھومنے لگے تھے۔‘‘ میں نے ان دونوں کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور کہا: دفع ہو جاؤ۔ آئندہ ایسا مت کرنا۔ عبدالرحمن بن عمر بن خطاب نے کہا کہ اگر آپ حد قائم نہیں کریں گے تو میں جب مدینہ جاؤں گا، اپنے والد کو بتاؤں گا۔ میں نے سوچا اگر میں نے اس پر حد قائم نہ کی اور اس |