میں کیا آیا ہے۔ ہیرے جواہر پورے قالین پر اوس کے قطروں کی طرح پھیل گئے۔ اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر کے اندر تشریف لائے۔ قالین پر ہیرے جواہر بکھرے پڑے تھے۔ پوچھا: یہ کیا ہے؟ اہلیہ نے تمام ماجرا کہہ سنایا کہ میں نے ایک دینار کا عطر بھیجا تھا۔ یہ تمام ہیرے جواہر اسی کے عوض آئے ہیں۔ انھوں نے وہ تمام جواہرات اکٹھے کیے۔ انھیں فروخت کیا۔ اہلیہ کا ایک دینار اس کے حوالے کیا اور بقیہ روپیہ بیت المال میں جمع کرا دیا۔ ہیرے جواہر کے وہ تحائف امیرالمومنین کی اہلیہ کے نام پر آئے تھے۔ کسی عام آدمی کی اہلیہ ہوتی تو اس کے نام وہ تحائف نہ آتے۔ امیرالمومنین اور ان کی اہلیہ اس معاملے میں عام مسلمانوں سے بڑھ کر نہیں تھے۔ انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ جوشے عام مسلمانوں کو نہیں ملتی، ان کو میسر آئے۔ یوں ضروری تھا کہ وہ ہیرے جواہر مسلمانوں کے عام سرمائے میں شامل ہوتے۔ امیرالمومنین نے وہ تمام ہیرے جواہر بیت المال میں جمع کرا دیے۔ یوں وہ مسلمانوں کی اجتماعی ملکیت میں آگئے۔ اس سلسلے میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل اختیار کیا تھا۔ حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ازد کے ایک آدمی ابن لُتبیۃ کو بنوسلیم کی زکاۃ اکٹھی کرنے پر مامور کیا۔ وہ زکاۃ کا مال لے کر آیا تو چند اشیا اپنے پاس رکھ لیں اور کہا کہ یہ چیزیں مجھے تحفے میں ملی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو طیش آگیا۔ فرمایا: ’’اگر تم سچے ہو تو اپنے باپ اور اپنی ماں کے گھر میں ہی کیوں نہ بیٹھے رہے کہ یہ تحفے تمھیں وہاں ملتے۔‘‘ بعدازاں آپ نے مسلمانوں کو خطاب کیا اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ’’میں آپ میں سے آدمی کو (زکاۃ اکٹھی کرنے کے) کام پر مامور کرتا ہوں۔ |