خلیفۂ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا معمول مبارک تھا کہ وہ اپنے وزیروں سے میل ملاقات رکھتے اور ان کے حال احوال سے واقف رہتے تھے۔ انھوں نے عمیر بن سعد کو حمص کا والی بنایا تو ایک برس گزر گیا، ان کی کوئی خیر خبر نہ آئی۔ نہ وہ آپ سے ملاقات کرنے آئے۔ آپ نے اپنے منیم سے کہا عمیر بن سعد کو لکھیے کہ جونہی ہمارا خط ملے، فوراً چلے آئیں۔ خراج وغیرہ کی رقم بھی ساتھ لیتے آئیں۔ معلوم ہوتا ہے انھوں نے ہم سے خیانت کی ہے۔ عمیر بن سعد کو جونہی خط ملا، انھوں نے رخت سفر باندھا اور حمص سے نکل کھڑے ہوئے۔ مدینہ منورہ پہنچے تو رنگ اڑا ہوا، چہرہ غبار آلود، بال لمبے اور پراگندہ۔ خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سلامِ خلافت عرض کیا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیسے ہو؟ کہنے لگے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، صحیح سلامت، ٹھیک ٹھاک، دنیا میرے ساتھ ہے۔ اسے اس کے سینگ سے پکڑ کر کھینچے لا رہا ہوں۔ دریافت فرمایا: کیا لائے ہو اپنے ہمراہ۔ وہ بولے ایک تھیلا جس میں زادِ راہ رکھتا ہوں۔ ایک پیالہ جس میں کھانا کھاتا ہوں۔ اسی میں پانی ڈال کر سر اور کپڑے دھوتا ہوں۔ ایک لوٹا ہے جس میں وضو کا اور پینے کا پانی رکھتا ہوں۔ اور ایک لاٹھی جس کے سہارے کھڑا ہوتا ہوں۔ اگر کوئی دشمن سامنے آئے تو اُسے لاٹھی سے دفع کرتاہوں۔ بس، یہی ہے میری دنیا۔ ’’تو کیا پیدل آئے ہو؟‘‘ خلیفۂ ثانی نے دریافت کیا۔ ’’جی ہاں۔‘‘ ’’کوئی ایسا آدمی نہیں تھا جو تمھیں سواری دے دیتا؟‘‘ ’’کسی نے سواری دی نہیں اور میں نے کسی سے مانگی نہیں۔‘‘ عمیر بن سعد نے جواباً |