ہرگز نہیں کہ اس کے اور دوسروں کے حقوق و فرائض میں کوئی فرق ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں اونچا گھر بنا کر اونچائی سے لوگوں کو جھانکے۔ یوں لوگ اسے کیڑے مکوڑے نظر آئیں اور وہ انھیں حقیر جانے۔ وہ اپنے گھر کے اونچے اونچے مضبوط دروازے بنالے اور ان پر دربان کھڑے کر دے تاکہ کوئی عام آدمی اس تک نہ پہنچ پائے۔ یہ تمام باتیں خلیفۂ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منظور نہیں تھیں۔ وہ حکمرانوں کو عوام کے قریب دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ حکمران بذات خود عوام کے معاملات میں دلچسپی لیں۔ وہ بذات خود عوام کے حالات سے واقفیت حاصل کریں۔ یوں وہ عوام کی فلاح و بہبود کے کام بہتر طریقے سے انجام دے پائیں گے۔ لیکن اگر وہ اپنے محل کے دروازے بند کر کے اُن پر دربان لا بٹھائیں گے تو عوام کی شکایات انھیں نہیں پہنچیں گی۔ یوں عوام غم و غصے کا شکار ہو کر بغاوت پر اتر آئیں گے۔ حکمرانوں کے کارندے عوام کی جاسوسی کرکے باغیوں کا پتہ چلائیں گے۔ مار پیٹ کریں گے۔ پکڑ دھکڑ ہوگی۔ اس طرح ریاست کاسیاسی استحکام بگڑ جائے گا اور ریاست کا سیاسی استحکام ایک دفعہ بگڑ جائے تو اس کا سنورنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ تمام باتیں فتنوں کو ہوا دیتی ہیں۔ حکمران ایسی باتوں سے احتراز کریں اور ملک میں مساوات قائم کیا کریں تو ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوتا اور ملکی معیشت بھی مضبوط ہوتی ہے۔ یوں فتنوں کو بھی ہوا نہیں ملتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت ایسی بے اعتدالیوں سے پاک تھا۔ اُن کا مقرر کردہ والی یا عہدیدار جادۂ حق سے ذرا بھی انحراف کرنا چاہتا تو ان کا درہ اس کی درگت بنانے کو فوراً آموجود ہوتا اور بگڑتے عہدیدار کی تمام کلیں سیدھی ہو جاتیں۔ |