کے گھر کے دروازے کو آگ لگا رہا ہے۔ والی شہر نے کہا وہ جو کرتا ہے، اسے کرنے دو۔ وہ امیرالمومنین کا ایلچی ہے۔ دروازے کو آگ لگانے کے بعد وہ والی شہر کی خدمت میں گیا اور انھیں امیر المومنین کا خط دیا۔ اس میں لکھا تھا کہ خط پاتے ہی فوراً چلے آیئے۔ وہ فوراً سوار ہو کر چل پڑے۔ امیر المومنین کی خدمت میں پہنچے تو انھوں نے ملاقات کے لیے نہیں بلایا۔تین دن گزرے تو بلا بھیجا۔ وہ حاضرِ خدمت ہوئے تو فرمایا: ’’ابن قرط! ذرا حرہ کے میدان میں مجھ سے ملیے۔‘‘ حرہ کے میدان میں زکات کے اونٹ بکریاں چرتے تھے۔ ابن قرط حرہ میں پہنچے تو آپ نے ایک ڈول ان کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا: ’’اونٹوں کو پانی پلایئے۔‘‘ وہ پانی پلاتے پلاتے تھک گئے تو آپ نے فرمایا: ’’ابن قرط! لگتا ہے کہ عرصہ ہوا، اس کام سے آپ کا پالا نہیں پڑا۔‘‘ ابن قرط کھسیانی ہنسی ہنسے اور کہا: ’’جی ہاں، عرصہ ہوا۔‘‘ فرمایا: ’’اسی لیے آپ نے اونچا گھر بناکر مسلمانوں سے، بیواؤں اور یتیموں سے بلند ہونے کی کوشش کی ہے، جایئے، اپنا منصب سنبھالیے اور آئندہ ایسا مت کریے گا‘‘ ابن قرط بہت اچھے حاکم تھے۔ عوام سے بہت اچھا سلوک کرتے تھے۔ ان کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھتے تھے۔ اونچے ٹیلے پر ان کا گھر بنانا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پسند نہیں آیا۔ والی کا یہ طرز عمل ان کی افتادِ طبع کے خلاف تھا۔ ان کا خیال تھا کہ حکمران بھی رعایا ہی کا عام فرد ہوتا ہے۔ رعایا کے مقابلے میں اسے کوئی برتری حاصل نہیں ہونی چاہیے۔ ہاں اگر وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ نیک اور زیادہ تقویٰ شعار ہے تو اسے برتر تسلیم کرنا چاہیے۔ اس کے حکمران ہونے کا یہ مطلب |