اور پوچھ گچھ ہو۔ خلیفہ ایک طرف رعایا کی شکایات سن کر ان سے ٹال مٹول کرے اور دوسری طرف اپنے مقرر کردہ والی شہر سے ساز باز کرے۔ ایسا نہیں ہوتا تھا بلکہ حاکمِ شہر کو عوام کی عدالت میں پیش ہوکر کڑے احتساب کے مرحلے سے گزرنا پڑتا تھا۔ یوں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا اور حاکمِ شہر کے لیے ممکن نہیں رہتا تھا کہ وہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کوڈرائے، دھمکائے، ان پر جھوٹے الزامات عائد کرے یا انھیں جیلوں میں ڈال دے۔ (تاہم حکامِ شہر بھی ظالم نہیں ہوتے تھے اور نہایت وسیع الظرفی سے عوام کی شکایات کا ازالہ کرتے تھے۔) یوں حمص کے والی حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ خلیفۂ ثانی کی عدالت میں شکایات سے بری قرار پائے۔ عوام کو بھی اپنے والی کے متعلق اطمینان حاصل ہوا اور وہ ان کے حسنِ تدبیر اور ذمہ دارانہ طرز عمل سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ رعایا کی نگاہوں میں والی کا اعتبار بڑھا۔ رعایا اپنے والی سے محبت کرنے لگی اور اس کی قیادت میں ترقی کی منزلیں طے کرنے لگی۔ اسی قبیل کا ایک واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک وفد خلیفۂ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے ان کے امیر کے متعلق پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ امیر صاحب بالکل خیریت سے ہیں۔ ٹیلے پر اونچا گھر بنائے اسی میں رہتے ہیں۔ آپ نے فوراً ایک خط لکھا اور قاصد کے ہاتھ روانہ کیا۔ قاصد سے فرمایا: ’’اونچے گھر کے دروازے پر جب پہنچنا تو لکڑیاں اکٹھی کر کے دروازے کو جلا ڈالنا۔‘‘ قاصد وہاں پہنچا تو حضرت خلیفہ کے حسبِ ارشاد لکڑیاں اکٹھی کر کے دروازے کو آگ لگادی۔ لوگ بھاگم بھاگ والی شہر کی خدمت میں گئے اور بتایا کہ ایک آدمی آپ |