وقت مشرک تھا۔ اس حالت زار میں ان کی مدد نہیں کرپایا تھا۔ جب بھی یہ بات یاد آتی ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا وہ گناہ معاف نہیں کرے گا۔ تب مجھے غش آجاتا ہے۔‘‘ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’خدا کا شکر ہے جس نے میری فراست کو غلط قرار نہیں دیا۔‘‘ آپ نے ہزار اشرفیاں ابنِ عامر کے ہاں روانہ کیں اور فرمایا کہ انھیں اپنے کام میں لایئے۔[1] عامر جمحی کینہایت عجیب حکمران تھے وہ! ان سے بھی عجیب تھی ان کی رعایا! جو چاہتی تھی کہ حاکمِ شہر کا اور رعایا کا ایسا گہرا تعلق ہو کہ رعایا دنیا کو حاکمِ شہر کی نظروں سے دیکھے اور حاکمِ شہر دنیا کو ان کی نظروں سے دیکھے۔ ان کے مابین ایسی ہم آہنگی ہو کہ حاکمِ شہر رعایا کے دماغ سے سوچے اور رعایا حاکمِ شہر کے دماغ سے کام لے کر لوگوں کی فلاح و بہبود کے منصوبے بنائے۔ حاکمِ شہر ہر چھوٹے بڑے معاملے میں ان کے نگہبان کے طور پر موجود ہو۔ والی شہر کی کوئی بات رعایا کو ناگوار معلوم ہوتی یا اس کے بعض معاملات رعایا کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوتے تو وہ بلاتردد حاکمِ اعلیٰ سے رجوع کرتی تاکہ وہ والی شہر سے اس سلسلے میں ضروری پوچھ گچھ کرے اور ان کی شکایات کا ازالہ ہو۔ اور خلیفہ بھی کیا خلیفہ تھے! رعایا کی شکایات بے اُوبے بڑی توجہ سے سماعت کرتے۔ اور پوری کوشش کرتے کہ جیسے بھی ہو، رعایا کی شکایات کا ازالہ کیا جائے۔ ایسا بھی نہیں ہوتا تھا کہ رعایا کی شکایات تو کہیں اور سنی جائیں اور والی شہر سے کہیں |