لوگوں نے کہا: ’’یہ رات کو کسی سے نہیں ملتے۔‘‘ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابن عامر سے فرمایا: ’’اِس کی وجہ بیان کریں۔‘‘ انھوں نے جواب دیا کہ اس کی و جہ بھی میں بیان کرنی نہیں چاہتا تھا لیکن اب بتاتا ہوں کہ میں نے دن کے اوقات لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کر رکھے ہیں اور رات کے اوقات اللہ کی عبادت کے لیے۔‘‘ ’’تیسری شکایت کیا ہے؟‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا۔ لوگوں نے کہا: ’’مہینے بھر میں ایک دن یہ گھر سے باہر ہی نہیں آتے۔‘‘ ’’اس کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘ عمربن خطاب نے ابن عامر سے دریافت کیا۔ وہ بولے: ’’میرے ہاں کوئی خادم نہیں جو میرے کپڑے دھو دیا کرے۔ یہ کپڑے جو پہن رکھے ہیں، اِن کے علاوہ اور کوئی کپڑے بھی نہیں۔ انھیں دھو کر ان کے خشک ہونے کا انتظار کرتا ہوں۔ کپڑے پہن کر دن ڈھلے لوگوں کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔‘‘ ’’اور کوئی شکایت؟‘‘ خلیفۂ ثانی نے لوگوں سے دریافت فرمایا۔ ’’انھیں کبھی کبھار بیٹھے بٹھائے غش آجاتا ہے۔‘‘ لوگوں نے آخری شکایت پیش کی۔ آپ نے ابن عامر کو مخاطب کیا: ’’اس کا سبب کیا ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’مکہ میں جب خبیب انصاری رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تھا تو اس وقت میں بھی وہاں موجود تھا۔ قریش کے سرداروں نے ان کا بدن ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور انھیں ایک تنے پر سولی دی، پھر ان سے کہا: کیا تم پسند کرو گے کہ تمھاری جگہ محمد ہوتا۔ خبیب انصاری نے جواب دیا مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ میں اپنے گھر والوں کے درمیان اطمینان سے بیٹھا ہوں اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے کانٹا بھی چبھ جائے، پھر انھوں نے بلند آہنگ نعرہ لگایا۔ ’’یا محمد۔‘‘ میں اس |