Maktaba Wahhabi

109 - 241
سپہ سالار و قائد اور امیر میں پائے جانے ضروری تھے۔ والی یا عہدیدار کا انتخاب عمل میں آجاتا تو چھان بین اور تحقیقات کا نیا دور شروع ہوتا۔ اس کی ایک ایک حرکت پر کڑی نظر رکھی جاتی۔ اگر اس کا کوئی طرزِ عمل خلیفۂ ثانی کو ناگوار معلوم ہوتا تو اس سے جواب طلب کیا جاتا۔ قصور وار ثابت ہونے پر سزا دی جاتی اور بعض دفعہ عہدے سے معزول کر دیا جاتا۔ یہ عادل حکمران رعایا کی فکر میں رات رات بھر جاگتا تھا۔ اس نے رعایا میں کامل مساوات قائم کی تھی۔ وہ ہر مستحق کو اس کا حق دیتا تھا۔ وہ مظلوم کو انصاف دلاتا اور ظالم کا ہاتھ روکتا تھا، خواہ وہ شہر کا والی ہوتا یا کوئی سرکاری عہدیدار۔ حکومتیں عدل و انصاف کی اِسی مضبوط بنیاد پر قائم رہتی ہیں۔ عادلانہ طرزِ حکومت کا نتیجہ تھا کہ رعایا کا عام سے عام فرد جو اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہوتا، اس سے زیادتی کی جاتی یا اس کا حق مارا جاتا تو وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتا تھا جب تک وہ زیادتی کرنے والے سے بدلہ نہ لے لیتا یا اپنا حق حاصل نہ کرلیتا۔ حاکمِ وقت بھی اسے اس کا حق دینے کے سلسلے میں پس و پیش سے کام نہیں لیتا تھا۔ رعایا کو والی شہر سے جو بھی شکایت ہوتی وہ بلاتامل خلیفۂ ثانی کی خدمت میں عرض کی جاتی۔ خلیفہ فوری طور پر شکایت کا ازالہ کرتے اور والی شہر کو عوام کی عدالت میں صفائی پیش کرنی پڑتی۔ شہرِ حمص کے ایک باشندے خالد بن معدان بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سعید بن عامر جمحی رضی اللہ عنہ کو حمص کا والی بنایا۔ دورۂ حمص کے دوران میں اُنھوں نے اہل حمص سے ان کے حکمران کے متعلق دریافت کیا۔ انھوں نے خلیفہ کے روبرو سعید بن عامر جمحی کی
Flag Counter