Maktaba Wahhabi

108 - 241
سوچ سمجھ کر اٹھائے۔ وہ مواقع غنیمت کی پہچان رکھتا ہو اور ان سے بروقت فائدہ اٹھانے کی بھرپور صلاحیت سے بہرہ یاب ہو۔ اسے اس امر کا بخوبی ادراک ہو کہ کب اور کہاں لڑنا ہے، نیز کب اور کہاں لڑائی سے ہاتھ کھینچ لینا ہے۔ ایک مرتبہ سلیط نامی ایک بہادر سے فرمایا: ’’اگر تم میں جلد بازی کا شائبہ نہ ہوتا تو میں تمھیں سپہ سالار بنا دیتا لیکن جنگ کے لیے بردبار و متحمل مزاج آدمی ہی موزوں رہتا ہے۔‘‘ [1] وہ ہمیشہ ایسے سپہ سالار کو ترجیح دیتے تھے جو مضبوط و توانا ہونے کے ساتھ ساتھ اثر و رسوخ کا بھی مالک ہوتا تھا۔ جو اپنی بات منوانے کی اور لوگوں سے حسبِ لیاقت کام لینے کی قابلیت رکھتا تھا۔ جب انھیں موجودہ سپہ سالار سے زیادہ موثر سپہ سالار میسر آجاتا تو فوری طور پر اس کا تقرر کر دیتے تھے۔ حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو شام کی ولایت سے برطرف کرکے حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو شام کا والی بنایا تو لوگوں کے روبرو ابن حسنہ رضی اللہ عنہ کی صفائی پیش کی اور برطرفی کی و جہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں نے ابنِ حسنہ کو ناراضگی سے معزول نہیں کیا۔ دراصل مجھے قوی آدمی کی تلاش تھی۔‘‘ [2] اکثر فرمایا کرتے تھے: ’’مجھے اِس میں بہت حرج معلوم ہوتا ہے کہ مضبوط تر آدمی کے ہوتے ہوئے کسی اور کو سپہ سالار (یا امیر) بنادوں۔‘‘ وہ سپہ سالار کو غیرمعمولی نشانہ انداز اور بہت بہادر دیکھنا چاہتے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو محاذ عراق کا سپہ سالار اعلیٰ بنایا تو فرمایا: ’’وہ بڑا نشانہ انداز اور بہادر ہے۔‘‘ [3] یہ تھی ان تمام اوصاف کی تفصیل جو خلیفۂ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے نزدیک
Flag Counter