Maktaba Wahhabi

107 - 241
بھیجا اور منصبِ وزارت پر دوبارہ فائز کرنا چاہا تو انھوں نے انکار کر دیا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’آپ حکمرانی کو ناپسند کرتے ہیں حالانکہ یوسف علیہ السلام جو آپ سے بہتر تھے، انھوں نے خود حکومت طلب کی تھی۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواباً عرض کیا: ’’یوسف علیہ السلام نبی ابن نبی تھے اور میں ابوہریرہ ابنِ امیمہ ہوں۔‘‘ [1] ایک دفعہ ایک عمارت کے قریب سے گزرے جو پتھر اور چونے کے مسالے سے بنائی جارہی تھی۔ دریافت فرمایا کہ یہ کس کا مکان ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ بحرین پر آپ ہی کا مقرر کردہ عامل ہے، اس کا مکان ہے یہ۔ فرمایا: ’’آخر درہم پر پُرزے نکالنے لگے۔‘‘ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا: ’’اے امراو حُکام! یہ مال و متاع، اگر ہم سمجھتے کہ ہمارے لیے حلال ہے تو ہم اسے آپ کے لیے بھی حلال قرار دے دیتے۔ لیکن جب ہم نے اسے اپنے لیے حلال نہیں کیا اور اس سے دامن بچائے ہوئے ہیں تو آپ بھی اس سے دامن بچائیے۔ واللہ! آپ کی مثال تو اس پیاسے کی سی ہے جو بے قراری کے عالم میں دریا کے بیچوں بیچ کود پڑتا اور سیراب ہو کر ڈوب مرتا ہے۔‘‘ [2] افواج کی سپہ سالاری زیادہ تر ان صحابۂ کرام کو سونپتے تھے جو ابتدائی دور میں اسلام لائے تھے تاہم جن کی کارکردگی اس باب میں بہت نمایاں ہوتی انھیں ہرحال میں ترجیح دیتے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ جس آدمی کو افواج کا سپہ سالار بنایا جائے وہ نہایت سنجیدہ، بردبار، متحمل مزاج اور دور اندیش ہو۔ وہ جو بھی اقدام اٹھائے، نہایت
Flag Counter